”دادی اماں آج کوئی مزیدار سی کہانی سنائیے۔“ نعمان نے دادی امّاں کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
” مگر دادی اماں کہانی بالکل نئی ہونی چاہیے۔“ عثمان بھی آگیا اور دونوں ہر روز کی طرح دادی اماں سے کہانی سننے کی ضد کرنے لگے ۔
”بچو! مجھے آرام سے بیٹھنے تو دو۔“ دادی اماں نے تکیے سے ٹیک لگائی، چند لمحے سوچا اور بولیں ،” بچو آج میں تمہیں جو کہانی سناؤں گی وہ اگرچہ پرانی ہے لیکن آج بھی نئی لگتی ہے۔“
”وہ کیسے دادی اماں ؟“نعمان نے پوچھا ۔
”کیونکہ بیٹا !خون سے لکھی ہوئی کہانیاں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ جب بھی ماہ ستمبر آئے گا یہ کہانی دہرائی جاتی رہے گی اور ہر بار دلوں میں ولولے ،خون میں گرمی اور جسموں میں جوش ایمانی پیدا کر دے گی۔“ دادی اماں نے جواب دیا۔
” یہ کیسی کہانی ہے جلدی سنائیے۔“ نعمان بے تاب ہوا ۔
”بیٹا!1965 کی بات ہے ۔ ہندوستان نے سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ آہستہ آہستہ کشیدگی بڑھنے لگی ۔چھ ستمبر کو رات کا وقت تھا ۔سب اطمینان سے سو رہے تھے کہ اچانک توپوں کی گھن گرج سنائی دی۔ سائرن بجنے لگے۔ پتاچلا کہ بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔“
” پھر تو آپ سب لوگ ڈر گئے ہوں گے۔“ نعمان نے معصومیت سے پوچھا۔
” ہم کاہے کو ڈرتے، ہماری حفاظت کے لیے ہماری فوج جو تھی۔“ دادی اماں نے جواب دیا۔
” تو کیا رات کو ہماری فوج نہیں سو رہی تھی ۔“ عثمان حیران ہوا۔
”نہیں بیٹا! جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو ہمارے بہادر فوجی سرحدوں پر ہماری اور ملک کی حفاظت کے لیے جاگ رہے ہوتے ہیں۔“
” پھر کیا ہوا دادی اماں ؟“نعمان یہ کہانی سننے کے لیے بے چین تھا۔
” ہونا کیا تھا ہماری فوجوں نے ملک کا دفاع شروع کر دیا۔ لاہور پر بھارت نے تین اطراف سے حملہ کیا تھا اور یہ اتنا شدید اور سنگین تھا کہ بھارت کے جنگی جنون میں مبتلا لیڈر اور فوج کے افسران یہ یقین کر چکے تھے کہ وہ دوپہر کا کھانا لاہور پہنچ کر کھائیں گے مگر ہمارے بہادر فوجیوں نے ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔اپنی بہادری اور دلیری سے انہوں نے ہندوستان کو بتا دیا کہ پاکستان کوئی ترنوالہ نہیں ہے۔افواجِ پاکستان کے محافظ جذبہ شہادت سے سرشار ہوکر دفاعِ وطن کا فرض ادا کررہے ہیں۔
برکی سیکٹر میں پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں لڑ رہی تھی۔ اس نے بہادری کی ایک لازوال داستان رقم کی۔ میجر عزیز بھٹی چھ دن اور چھ راتیں مسلسل اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ لڑتے رہے۔ انہوں نے جان دے دی مگر دشمن کے ناپاک قدموں کو سرزمین مقدس تک نہیں پہنچنے دیا ۔
چھ ستمبر کا سورج غروب ہوتے ہوئے دشمن کو پیغام دے رہا تھا کہ اس نے پاکستانی قوم کو للکار کر کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ چونڈہ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی جس نے جنگ قادسیہ کی یاد تازہ کر دی۔“ دادی اماں دَم لینے کو رکیں۔
” وہ کیسے؟“ عثمان کو حیرت ہوئی ۔کہانی میں دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔
” بیٹا! جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف چوبیس ہزار اور کفار کی تعداد تین لاکھ تھی اور اس جنگ میں ایرانی بکتر بند ہاتھیوں کو مسلمانوں کے مقابل لے کر آئے تھے اسی طرح چونڈہ میں دشمن ایک ہزار ٹینک لے کر آیا اور ان کا امتیازی نشان کالا ہاتھی تھا ۔“دادی اماں نے بتایا ۔
”کیا مطلب.... کالے ہاتھی کا نشان کیسے بنایا ؟“نعمان نے سوال کیا۔
”بھئی ہر ٹینک پر کالے ہاتھی کا سکیچ بنا تھا۔“ دادی اماں نے جواب دیا ۔
”پاکستان کے پاس کتنے ٹینک تھے ؟“عثمان نے پوچھا، پاکستان کے پاس صرف ڈیڑھ سو ٹینک تھے مگر ہمارے مجاہدوں کے دل جذبۂ شہادت سے معمور تھے۔ جنگ قادسیہ میں مسلمانوں نے ہاتھیوں کو بری طرح زخمی کر کے بھگا دیا تھا اور چونڈہ میں ہمارے سرفروشوں نے اس روایت کو زندہ کر دیا اور اپنے آہنی جذبے سے ان ٹینکوں سے لڑ گئے اور چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ ‘‘
’’دادی اماں، ہمارے سپاہیوں کو موت سے ڈر نہیں لگتا تھا؟“ نعمان نے پوچھا۔
”نہیں بیٹا مومن سپاہی موت سے نہیں ڈرتا وہ شہادت کو زندگی کی معراج سمجھتا ہے ۔کیونکہ شہید مرتا نہیں بلکہ حیاتِ جاوید پا لیتا ہے۔ ہمارا ہر فوجی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے بے چین تھا ۔جو فوجی زخمی ہو کر مرہم پٹی کے لیے ہسپتال لائے جاتے تھے، وہ دوبارہ محاذ ِجنگ پر پہنچنے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے ۔“
”کیا ہمارے ملک پر ہندوستان نے فضائی حملہ بھی کیا تھا ؟“
”بالکل کیا ۔ہندوستان کے پاس 536 جنگی طیارے تھے اور دو درجن ہوائی اڈے جبکہ پاکستان کے پاس صرف 141 جنگی طیارے تھے اور صرف تین ہوائی اڈے ۔بھارت نے لاہور اور سرگودھا سے اپنے ہوائی حملوں کا آغاز کیا۔“ دادی اماں نے بتایا ۔
” آ پ نے دیکھے تھے دشمن کے جہاز ؟“ عثمان نے سوال کیا ۔
” بالکل دیکھے تھے ۔جب لاہور کے آسمان پر پاک فضائیہ کے سائبروں اور بھارتی ہنٹروں کی جنگ ہوتی تھی تو ہم چھت پر چڑھ کر دیکھا کرتے تھے۔ سارے نوجوان بھارتی طیاروں کی درگت بنتے دیکھ کر نعرے لگاتے تھے۔“
” لیکن دادی اماں پاکستان کے پاس تو بہت کم جنگی طیارے تھے۔“ عثمان نے اعتراض کیا۔
” تم ٹھیک کہتے ہو بیٹا !مگر جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں۔ ہمارے بہادر ہوا بازوں ایم ایم عالم، سرفراز رفیقی اور یونس صدیقی نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی تھی ۔ ایم ایم عالم کا طیارہ تو تم نے دیکھا ہی ہوگا جس نے دو منٹ میں دشمن کے پانچ طیارے مار گرانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔” دادی اماں نے کہا۔
” جی! ہم نے دیکھا ہے۔“ دونوں بیک آواز بولے ۔
”کیا بحریہ نے جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا ؟ نعمان نے پوچھا۔
” بیٹا، وہ کیوں اپنی برّی اور ہوائی فوج سے پیچھے رہتی۔ سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب تھی۔ کیپٹن کرامت رحمان، غازی آبدوز لے کر بھارتی بندرگاہ دوارکا کی جانب بڑھے اوراس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ “دادی اماں کے لہجے میں فخر تھا۔
”دادی اماں! ہماری فوج تو سرحدوں پر لڑ رہی تھی، باقی قوم کیا کر رہی تھی؟“ نعمان کے ذہن میں ایک اور سوال آ یا۔
’’ہماری قوم اپنی فوج کے ساتھ تھی۔ ہر فرد نے دھرتی کی آواز پر لبیک کہا ۔جس کے پاس جو کچھ تھا اس نے وطن کے نام کر دیا۔ ہسپتالوں میں فوجیوں کے لیے خون کے عطیات دینے والوں کا ہجوم تھا۔ ریڈ کراس کے دفتروں میںپاکستانی فوجیوں کے لیے تحائف کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ہر طرح سےارض پاک کے محافظوں کو یہ احساس دلایا جا رہا تھا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ پوری قوم ان کے ساتھ ہے اور آ ج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے بہادر محافظوں نے اپنی قوم اور اپنی زمین کو مایوس نہیں کیا بلکہ ہر محاذ پر زبردست قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔سترہ روزہ لڑائی اس بات کی گواہ ہے کہ ان جان بازوں نے ارضِ پاک پر اپنے خون کی دیواریں کھڑی کر کے وطن عزیز سے محبت کا حق ادا کر دیا۔ پاک فوج کے سر فروشوں نے تعداد کے لحاظ سے دس گنا بڑے دشمن کو شکست دی۔“
” دادی اماں ہمارے فوجی واقعی بہت بہادر ہیں؟“ عثمان کے لہجے میں ستائش تھی۔
” تم ٹھیک کہتے ہو بیٹا، ہمارے فوجی بہت بہادر ہیں۔ اگر یہ اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو آج ہم زندہ نہ ہوتے۔ اب یہی دیکھ لو اس وقت تم مزے سے کہانی سن رہے ہو ، میں یہاں اطمینان سے بیٹھی ہوں مگر ہمارے فوجی جوان سرحدوں کی حفاظت کے لیے پوری طرح چوکس ہیں ۔سردی گرمی آندھی طوفان کوئی بھی موسم انہیں اپنے فرائض سے غافل نہیں ہونے دیتا۔
تھوڑی دیر بعد رات گہری ہو جائے گی۔پاکستان کے سارے شہر سارے گاؤں اطمینان اور سکون کی چادر اوڑ ھ کر نیند کی آغوش میں چلے جائیں گے مگر دھرتی کے ان پاسبانوں کی آنکھیں جاگتی رہیں گی۔ سیاچن گلیشیئر کی ہزاروں فٹ بلندی پر شدید سردی کے باعث ان کے جسموں کا گوشت جھڑنے لگتا ہے۔ وہ فراسٹ بائٹ کا شکار ہوسکتے ہیں مگر پاکستان سے محبت انہیں دفاع وطن کے فریضے سے غافل نہیں ہونے دیتی۔ یہی نہیں کہ وہ صرف سرحدوں کے امین ہیں بلکہ وہ ہر مشکل وقت میں ملک کے کام آتے ہیں۔ سیلاب ہو یا زلزلہ، اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہماری جانیں بچاتے ہیں ۔“دادی اماں نے تفصیلی جواب دیا۔
”دادی اماں! آج کی کہانی بہت مزیدار بہت دلچسپ تھی۔“ دونوں ایک ساتھ بولے۔
”بیٹا!چھ ستمبر صرف ایک دن یا تاریخ کا نام نہیں ہے یہ ان پاکستانی شہیدوں کا نام ہے جو آنے والی نسلوں کو ایثار و قربانی اور شجاعت کا پیغام دے رہے ہیں۔ جو کہانی میں نے تمہیں سنائی ہے یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ مشعلِ راہ ہے جس کی روشنی میں ہماری نئی نسل اپنی منزل کا تعین کر سکتی ہے ۔“دادی اماں نے سمجھایا۔
”دادی اماں میں بڑا ہو کر فوج میں جاؤں گا۔“ نعمان نے اپنے مستقبل کا فیصلہ لمحوں میں کر لیا۔
” میں پاک فضائیہ کا پائلٹ بنوں گا ۔“نومی نے بھی فیصلہ سنایا۔
”آپ دُعا کریں دادی اماں ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ جس طرح ہماری بہادر افواج نے اپنی قربانیوں سے یوم ِدفاع کو ہمارے لیے قابلِ فخر دن بنا دیا ہے اسی طرح ارض ِپاک سدا ہم پر فخر کرے اور آنے والے دنوں میں دادی امائیں پاکستانی بچوں کو ہماری کہانیاں سنائیں!“ یہ نعمان اور عثمان کی خواہش تھی۔
” اللہ تعالیٰ تمہارے اس جذبے کو قائم رکھے اور تمہیں پاکستان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل تمہارے ہاتھوں میں محفوظ ہوگا!“دادی اماں نے مستقبل کے ان پاسبانوں کو فخر سے دیکھا۔جن کی آنکھیں وطن کی محبت سے چمک رہی تھیں۔
تبصرے