’’بابا جان یہ دیکھیں، ٹیلی ویژن آن نہیں ہو رہا۔ اگر آج یہ نہ چلا تو۔۔۔؟‘‘
عدنان نے پریشانی سے اپنے ابو جان کی طرف دیکھا تو وہ مطمئن انداز میں کہنے لگے:’’بیٹا! فکرنہ کرو ، کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ جب آپ کو کسی چیز کی اشد ضرورت ہوتی ہے تووہ کام نہیں کرتی۔ لیکن کوئی بات نہیں اگر یہ نہ چلا تو آپ میرے کمرے سے لے آنا۔‘‘عدنان نے دوسرے آپشن کے بارے میں سنا تو اس کا چہرہ خوشی سے دمک اُٹھا۔ وہ بابا جان کے کمرے میں جانے ہی والا تھا کہ اچانک وہ آن ہو گیا۔
وہ 8مئی 2024 اور بدھ کا دن تھا۔ عدنان نے اپنے ہاں کچھ دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی، ابو جان اور اس کے ہر دلعزیز ٹیچر ناصر صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ وہ سب ظہر کی نماز سے پہلے ایک ایسی خبر کی آمد کے منتظر تھے جس کا تعلق ایک بہت بڑی کامیابی سے تھا۔
عدنان دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جدید ٹیکنالوجی ، نئی ایجادات اور خلائی مشنز کے بارے میں جاننا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ کبھی کبھار گھر میں کوئی معلوماتی بیٹھک پر دوستوں اور اساتذہ کو مدعو کرتا تھا۔ جس کی بدولت اس کی اور وہاں آنے والے تمام لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہونے والا تھا۔ تھوڑی دیر میں سب لوگ وہاں موجود تھے۔ عدنان نے اپنے ابو اور ٹیچر کو سامنے والے صوفے پر بٹھایا اور دوستوں کو ان کے قریب بیٹھنے کو کہا ۔ جب سب بیٹھ چکے تو اس نے ٹیلی ویژن آن کر دیاجس پر ایک نیوز چینل مختلف خبریں دکھا رہا تھا۔ اچانک ایک خبر نمودار ہوئی اور سب کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھے۔
’’پاکستانی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر چاند کے مدار میں کامیابی سے داخل ہو چکا ہے۔‘‘اس خبر کا سننا تھا کہ عدنان سمیت وہاں موجود ہر شخص خوشی سے مسکرا اُٹھا۔ سب نے اپنے وطن کی اس کامیابی پر ایک دوسرے کو مبارک باد دی ۔ اسی دوران جب سب لوگ چائے کے مزے لے رہے تھے تو عدنان کے ابو کہنے لگے:’’نوجوانو! ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہمارے وطن کے محنتی اساتذہ کرام اور ہونہار طلبہ کی محنت رنگ لے آئی اور پاکستان نے دیگر کامیابیوںکی طرح یہ کامیابی بھی اپنے نام کر لی ہے۔ آج سر ناصر بھی ہمارےساتھ موجود ہیں تو میں چاہوں گا کہ وہ اس بارے میں آپ کو تفصیل سے بتائیں تاکہ آپ کی معلومات میں اضافہ ہو۔
ناصر صاحب نے یہ سنا تو عدنان کے ابو جان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگے :’’یہ مشن 3مئی کو چین کے شہر ہینان کے ’’وینچنگ خلائی سنٹر‘‘ سے چاند کی طرف روانہ ہوا تھا اور الحمد اللہ آج 8مئی کو چاند کے مدار میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں اور سائنس کے ہونہار طلبہ کی جانب سے تیار کردہ یہ سیٹلائٹ چین کی جانب سے بھیجے گئے چاند مشن ’چینگ ای 6‘ کے ساتھ گیا۔ اسے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اور پاکستان نیشنل اسپیس ایجنسی ’سپارکو‘ کے تعاون سے تیار کیاہے۔ ‘‘
وہاں موجود طلبہ نے یہ سنا تو ان کے دل میں اس بارے میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ ناصر صاحب یہ بھانپ چکے تھے۔ وہ انہیں مزید بتانے لگے:’’یہ دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہےجو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ دنیاکا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) کے مطابق ’آئی کیوب قمر ‘ سیٹلائٹ کا وزن صرف 7کلو گرام ہے لیکن وہ چینی خلائی مشن کا سب سے اہم کام سر انجام دے گا۔‘‘
ناصر صاحب یہ معلومات فراہم کر رہے تھےمگر پھر بھی وہاں موجود کچھ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوالات تھےجنہیں بھانپ کر عدنان کے ابو نے ناصر صاحب سے ایک سوال کر دیا:’’آئی کیوب سے کیا مراد ہے؟‘‘
’’آئی کیوب ‘‘ در اصل خلائی سائنس کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ’’ایک چھوٹا سیٹلائٹ‘‘۔ آپ سب سے لیے حیرت کا باعث ہو گا کہ پاکستان نے پہلی بار اس طرح کے چھوٹے سیٹلائٹ ایک دہائی قبل 2013میں بنائے تھے اور اب اسی طرح کا ایک چھوٹا سیٹلائٹ چاند کے مشن پر روانہ کر دیا ہے۔‘‘ ناصر صاحب نے وضاحت کی اور بتانے لگے کہ ’آئی کیوب قمر‘ کس طرح چینی خلائی مشن کا حصہ بنا؟
’یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے مطابق چین نے چاند پر اپنا مشن بھیجنے سے دو سال قبل ایشیائی خلائی ایجنسی (ایشیا پیسفک اسپیس کو آپریشن آرگنائزیشن ) کے رکن ممالک ترکیہ، منگولیا ، پیرو، تھائی لینڈ ، ایران ، بنگلہ دیش اور پاکستان کو دعوت دی کہ وہ اپنے خلائی سیٹلائٹ چین کے مشن کے ساتھ چاند کے مدار تک مفت بھیج سکتے ہیں کیونکہ اگر ویسے چاند کے مدار تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو اس کے لیے اچھے خاصے اخراجات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ چینی دعوت کے بعد اگرچہ دیگر ممالک نے بھی اپنے خلائی مشن بھیجنے کی درخواست کی لیکن چینی سائنس دانوں نے8ممالک میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا جس کے بعد پاکستانی ماہرین اور طلبہ نے دو سال کے کم عرصے میں ’آئی کیوب قمر ‘ سیٹلائٹ تیار کر کے اسے چین بھیجا۔ چینی سائنس دانوں نے پاکستانی سیٹلائٹ کو اپنےچینی خلائی مشن کا حصہ بنا کر تین مئی 2024کو اسے چاند پر بھیجا جو کہ دونوں ممالک کے لیے تاریخی دن تھااور یوں پاکستان پہلی بار چاند پر جانے والے مشن کا حصہ بن گیا۔ یہ مشن تین سے چھ ماہ تک چاند کے مدار میں گردش کر کے چاند کی سطح کی تصاویر لے گا۔ اس مشن کی کامیابی بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی تصاویر زمین پر پہنچنا شروع ہو گئی ہیں جن پر پاکستانی اور چینی سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں۔‘‘
عدنان کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا ۔ اس کے ذہن میں ایک سوال بار بار آ رہا تھا۔ آخر کار اس نے وہ پوچھ ہی لیا:’’سر! آئی کیوب کی سمجھ تو آ گئی مگر یہ ’’قمر ‘‘ اس کے نام کے ساتھ کیسے جڑ گیا؟‘‘
ہاں بھئی بہت اچھا سوال ہے۔ چونکہ یہ مشن چاند کی جانب جا رہا تھا اس لیے اس میں ’قمر‘ یعنی چاند کے لفظ کا اضافہ کر دیا گیا۔ آئی کیوب اس لیے کہ آئی ایس ٹی میں موجو د سب سے چھوٹے سیٹلائٹ پروگرام کا نام ’آئی کیوب ‘ ہےاور اس کے تحت انسٹیٹیوٹ کی جانب سے 2013میں پہلی سیٹلائٹ ’آئی کیوب ون‘ کے نام سے لانچ کی گئی تھی۔‘‘
’’بلاشبہ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس مشن کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔ دیگر ممالک میں امریکہ، روس، چین ، جاپان، اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ جنوبی کوریا، لگزم برگ اور اٹلی مختلف راکٹوں کی مدد سے چاند کے مدار تک جا چکے ہیں۔
عدنان کا ایک دوست عمران بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے ابو ناسا میں ملازمت کر چکے تھے۔ وہ انہیں ایسی ہی معلومات فراہم کرتے رہتے تھے۔ عمران نے موقع غنیمت جانا اور اجازت طلب کر کے کہنے لگا:’’سر! میرے خیال میں تو یہ انسان کی جستجو کی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تسخیر کائنات کا حکم دیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر انسان آسمانوں میں موجود کہکشائوں کو دریافت اور تسخیر کرتا رہتا ہے۔ ہمارے سامنے جولائی 1969کی مثال موجود ہے جب نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر قدم رکھ کر تاریخ رقم کی تھی۔ اس کے بعد پانچ مرتبہ امریکی مشن چاند پر بھیجے گئے لیکن 1972کے بعد سے چاند پر کوئی خلا باز نہیں اترا۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر انسان کو بھیجنے کا اعلان کرنے کے بعد پہلی کوشش میں ہی انسان کو چاند کی سطح پر نہیں اتارا بلکہ اس سے پہلے چاند کی طرف بہت سی خلائی گاڑیاں بھیجی گئیں اور اس خلائی منصوبے کو ’’اپالو مشن ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ چونکہ چاند زمین سے تقریباً 3لاکھ کلو میٹر دور ہے اور زمین سے اتنا زیادہ فاصلہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی طے نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اپالو مشن میں 12اپالو خلائی گاڑیاں چاند کی طرف ایک ایک کر کے بھیجی گئیں اور ہر خلائی گاڑی چاند پر نہیں اتری بلکہ پہلی کچھ گاڑیاں زمین کا چکر لگا کر واپس آ گئیں جس کے بعد ناسا نے انسان کو چاند پر اتارنے کا حتمی اعلان کی اور 16جولائی 1969 کو اپالو 11کی خلائی گاڑی 3خلابازوں کو لے کر چاند کی طرف روانہ ہوئی ۔ زمین سے روانگی کے 5دن بعد 21جولائی 1969 کو یہ خلائی گاڑی چاند کی سطح پر اتری۔ چاند کی سطح پر اس مقام کو ’’ٹرانسکو یلیٹی بیس‘‘ یعنی امن مرکز کا نام دیا گیا۔ اپالو کی اس خلائی گاڑی کے 2حصے تھےجن میں سے ایک حصہ الگ ہو کر چاند پر اترا جسے چاند گاڑی ’’ایگل‘‘ کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ پائلٹ گاڑی ’’کولمبیا‘‘ تھی جو کہ چاند کے گرد چکر لگاتی رہی ۔ چاند گاڑی میں نیل آرم سٹرانگ اور بزایلڈرین موجود تھے جبکہ مائیکل کولن پائلٹ گاڑی میں ہی رہے۔ چونکہ مائیکل کولن زمین سے 3لاکھ کلومیٹر دور اکیلے تھے اس لیے انہیں حضرت آدم کے بعد ’دنیا کا سب سے تنہا انسان‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چاند پر ’’ایگل‘‘ کے اترنے کے تھوڑی دیر بعد جب امریکی خلاباز نیل آرم سٹرانگ نے چاند گاڑی سے نکل کر چاند پر پہلا قدم رکھا تو اس وقت ان کے الفاظ یہ تھے:’انسان کا یہ چھوٹا سا قدم، نوح انسانی کے لیے ایک بڑی چھلانگ ہے۔‘‘
عمران کی باتیں سن کر سب نے اسے داد دی۔ سر ناصر بولے:’’بالکل بیٹا! آج پاکستان نے اس میدان میں بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ ہمارے وطن میں شوق کی کوئی انتہا نہیں ۔ ذہین اور محنتی لوگوں کو اپنی منزل مل جاتی ہے۔ آپ سب پاکستان کا مستقبل ہیں ۔ جدید دور اسپیس کا ہے۔ اس میدان میں آپ کو آگے بڑھ کر وطن کی خدمت کرنی ہے۔ تو دیکھا، جس طرح آئی کیوب قمر ہمارے سائنسدانوں اور انجینئرز کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے، آپ میں سے ہر کوئی اپنے دل میں آگے بڑھنے کا شوق رکھے تو ہم ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھ سکتے ہیں۔ ‘‘ سر ناصر کی بات پر تمام نوجوانوں نے ان کی تائید کی۔ جب وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو ان کے دل وطن کا نام روشن کرنے کے عزم سے سرشار تھے۔
تبصرے