عمار نے سکول کا کام ختم کرکے انگڑائی لی اور کاپی بیگ میں ڈالتے ہوئے ہانیہ آپی سے مخاطب ہوا، ’’آپی! میںان چھٹیوں میں گھر بیٹھ بیٹھ کر سخت بورہو رہا ہوں۔ ہمیںکہیں باہرجانا چاہیے۔آپ کا کیا خیال ہے ؟ـ‘‘
ہانیہ آپی نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے زہرا،حسن اور عمار کی طرف دیکھا اور بولیں، ’’بالکل ٹھیک، بہت اچھا آئیڈیا ہے۔ ہمیں ابھی باباجان سے بات کرنی چاہیے۔میں بھی کالج کا کام کر کرکے تھک گئی ہوں۔کچھ آئوٹنگ ضروری ہے۔‘‘
سب بچوں نے آپی کی ہاں میںہاں ملائی اور اکٹھے ہو کر باباجان کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے بچوں کو ایک ساتھ دیکھا تو حیران ہوئے اور اپنے پاس آنے کی وجہ پوچھی۔
زہرا دوڑ کر باباکی گردن میں بازوئوں کا گھیرا بناتے ہوئے بولی، ’’باباجان!ہم سب گھر رہ کربور ہوگئے ہیں اوراب کہیںگھومنے جانا چاہ رہے ہیں۔آپ ہمیں کہیں سیرپر لے چلیں۔‘‘
باباجان نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سرہلایا اور بولے،’’بالکل، ہم اسی ہفتے کسی پُرفضا مقام کی جانب جائیں گے۔ وہاں خوب گھومیں پھریں گے۔‘‘
باباجان کی اس بات پر بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔
طے شدہ دن پر بچوں نے اپنی ضرورت کی تما م اشیاء پیک کیں۔امی جان کی مدد سے کھانے پینے کا سامان بھی رکھ لیا۔یوں یہ تمام اہلِ خانہ اپنے شہر سے دُور ایک پُر فضا مقام کی جانب روانہ ہو گئے۔
پکنک اسپاٹ پر پہنچتے پہنچتے شام ہو چکی تھی۔کچھ دیر آرام کے بعد فیصلہ ہوا کہ خیمہ لگا نا چاہیے۔ باباجان نے ایک بڑا خیمہ نکالا اور لگانا شروع کر دیا۔سب بچے باباجان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ کچھ ہی دیر میںخیمہ نصب ہو گیا تو پروگرام بنا کہ باربی کیو کا آغاز کیا جائے۔انگیٹھی جلائی گئی اور باربی کیو کا سامان نکال کر لگانا شروع کر دیا گیا۔باباجان نے مشورہ دیا کہ کیوںنا ہم باربی کیو کے ساتھ ساتھ کسی اہم موضوع پر گفتگو بھی کریں تا کہ معلومات میں اضافہ ہوسکے۔’’ میرے خیال میں ہمیں دورانِ تعلیم سیر و سیاحت کے فوائد اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بات چیت کرنی چاہیے۔‘‘
ہانیہ نے کہا:’’ بالکل ٹھیک بابا جان!مجھے اندازہ ہے کہ آج کے دور کا انسان اتنا علم رکھتا ہے کہ اس نے ساری دنیا کے چپے چپے کو چھان مارا ہے۔ یقیناََ ایسا صرف سیاحت کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ جو افراد حصول علم کے لیے سفر کرتے ہیں، نہ صرف ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کے بہت سارے مسائل بھی حل کر لیتے ہیں۔‘‘
عمار نے ہانیہ آپی کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ سال میں ایک بار سیاحت کے لیے نکلنا ،دل و دماغ پر اچھا اثرڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے تعلیمی ادارے اپنے طلبہ کو سیروسیاحت کے لیے مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں۔ایک نئی جگہ کی سیر، اس کے مختلف علاقوں کو دیکھنے کا تجسس اور وہاں جانے سے قبل پُرجوش ہونا، ان سب باتوں سے طلبہ کے ذہن پر اچھا اثر پڑتا ہے اور وہ خود کو تروتاز ہ بھی محسوس کرتے ہیں۔‘‘
بابا جان نے عمار اور ہانیہ کی باتوں کی تائید کی اور بولے، ’’یہ بات درست ہے کہ سیروسیاحت سے ذہنی صحت اچھی رہتی ہے جس کے باعث انسان زیادہ بہتر طریقے سے روزمرہ کام ا نجام دے سکتاہے۔ صحت اچھی ہو گی تو بہت سے امراض سے انسان کا پیچھا بھی چھوٹ جائے گا اور یوں اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔‘‘
اسی دوران حسن بولا،’’ساتھ ہی ساتھ مختلف جگہوں کی سیر اور نئے تجربات کرکے ہمارے خوف میں بھی کمی آتی ہے جس سے خود اعتمادی میںاضافہ ہوتا ہے اوربچے دنیا کا سامنا کرنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوجاتے ہیں۔ چونکہ قدرتی مناظر کی سیاحت انسان کے ذہن میں بند دریچے کھولتی ہے اس لیے اس کی تخلیقی صلاحیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس دوران جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ بھی تربیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ انسان مختلف مسائل اور مشکل حالات کا حل نکالنے کے قابل ہوجاتا ہے۔‘‘
ہانیہ آپی نے زہرا کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا،’’اکٹھے سفر کرنے سے باہمی محبت ااور خلوص میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
بابا جان، جو ساتھ ساتھ باربی کیو تیارکررہےتھے، بولے:’’بالکل ایسا ہی ہےبلکہ دورانِ سفرنئے لوگوں سے ملنا، ان کے علاقوں کی کہانیاں سننا، رہن سہن کا مشاہد ہ کرنا اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سےانسان کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتاہے اور لوگوں کو سمجھنے کا موقع بھی ملتاہے۔‘‘
عمارنے باباجان کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’مختلف مقامات کے لوگوں سے ملاقات، ان کے رسوم ورواج سے آگاہی اور مزے مزے کے کھانے کھانا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
زہرا جو کافی دیرسے خاموش بیٹھی تھی،اچانک بولی، ’’میں نے بہت سی تصویریں اور سیلفیاں بنا لی ہیں۔ جب ہم سیر سے واپس گھر پہنچیں گے تومیں یہ تمام تصاویر اپنی سب سہیلیوں سے شیئر کروں گی۔مجھے یقین ہے کہ وہ یہ تصویریں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔ ‘‘
زہرا کی بات سن کر بابا جان بولے،’’ بچو! سب سے اہم بات یہ کہ جب آپ سیر و سیاحت سے تازہ دم ہو کرواپس پہنچیں گے تو اپنے اندر ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گے اوریوں ایک نئے جذبے کے ساتھ اپنی پڑھائی شروع کرسکیں گے۔بچو، ہم نے سیر و سیاحت کے فوائد پر خاصی بات کر لی ہے، کیوں نا اب اپنی ذمہ داریوں اور آداب کے بارے میںبات ہو جائے؟‘‘
ہانیہ نے جواب دیا،’’ جی بالکل ،سفر اور سیاحت کے بھی کچھ آداب اور اصول ہوتے ہیں جن کا جاننا ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔ مثلا ًسفر کے دوران اپنے ارد گرد کے لوگوںکے جذبات اور احساسات کا پورا خیال رکھنا چاہیے اور ہر ایک سے خوش اخلاقی کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔‘‘
عمار بولا،’’ اسی طرح جب ہم کسی تاریخی مقام کی سیر کو جائیں تو ضروری ہے کہ ان جگہوں کو خراب نہ کریں۔ پارکوں میں موجود پھولوں ، گھاس اور درختوں کا خیال رکھیں۔ ان کی خوشبو سے لطف اندوز ضرور ہوں لیکن انہیں توڑیں بالکل نہیں۔اسی طرح سیر گاہوں میں کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں اور صفائی کاخیال رکھیں۔پہلے سے گرا ہوا کوڑا کرکٹ دیکھیں تو اسے اُٹھا کر قریبی کُوڑے دان میں ڈال دیں۔اپنے اردگرد آئے ہوئے سیاحوں اور دیگر افراد کے راستے میںرکاوٹ نہ بنیں۔‘‘
باباجان بولے، ’’سیر کے دوران ایک اہم اور ضروری بات یہ بھی یاد رکھیںکہ کوئی ایسی شرارت نہ کریں جس سے شرمندگی ہو۔ تہذیب کے اندر رہ کر گفتگو کریں، اپنی آواز بلند نہ رکھیں اور اونچی آواز میں میوزک ہرگز نہ لگائیں تا کہ مقامی اور دوسرے لوگ اس شور شرابے سے پریشان نہ ہوں۔ ان جگہوں پر درج احکامات اور ہدایات پر عمل کریں۔جس جگہ جانے سے روکا جائے، وہاں مت جائیں۔‘‘
زہرا نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا، ’’ ہمیں چاہیے کہ ہم کھیل کود کے دوران لڑائی جھگڑا نہ کریں اور سب کو کھیلنے کا موقع دیں۔‘‘
باباجان نے زہرا کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’بالکل بیٹی، ایسا ہی ہے۔میں آپ کو مزید کچھ ہدایات دیتا ہوں جن پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔کسی علاقے میں جائیں تو وہاں کے رسم و رواج اور تہذیب کا خاص خیال رکھیں اورباوقار لباس پہنیں۔مقامی لوگوں کو گھُور گھُور کر مت دیکھیں۔ اسی طرح ان کی خلوت، رازداری، گوشہ نشینی اور نجی ملکیت کا خیال رکھیں۔اکثر علاقوں کے لوگ گھروں کے دروازوں کو تالے نہیں لگاتے، اس لیے ان کے گھروں میں جھانکنے سے پرہیز کریں۔کسی کا مذاق مت اُڑائیں۔بلاوجہ ان کی تصاویر نہ بنائیں۔مقامی لوگوں سے نرمی سے بات کریں۔ضروری ہے کہ کسی بھی علاقے میں جانے سے پہلے وہاں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرلیں۔نظم و ضبط کا خیال رکھیں۔اگر آپ چلتے ہوئے کسی سے ٹکرا جائیں تو معذرت کریں۔ بزرگوں کی عزت کریں اور چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آئیں۔اس کے علاوہ سیاحت کے دوران کسی دکاندار سے خریداری کی صورت میں بھائو کا پہلے پتا کر لیں تا کہ بعد میں کسی بد مزگی سے بچا جا سکے۔صحت کے حوالے سے بھی ضروری ہے کہ بیمار لوگوں اور بزرگوں کا خاص خیال رکھیں اور سب سے اہم بات کھانے پینے میں احتیاط کریں۔ صاف ستھری غذا کھائیں۔ پھل دھو کر استعمال کریں۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرکے ہم اپنی سیر وسیاحت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔‘‘
یہ باتیں جاری تھیں کہ امی جان نے آوازدی،’’سب آجائیں، مزے مزے کا باربی کیو تیار ہے۔‘‘
سب نے مزے لے کر باربی کیو سے لطف اُٹھایا۔بابا نے سونے سے پہلے چہل قدمی کاارادہ کیا تو سب اپنی اپنی لالٹینیں لے کر ان کے ساتھ چل پڑے۔
تبصرے