پاکستان کے منفرد مجسمہ ساز منصور زبیری کے افواج ِ پاکستان کے لیے بنائے گئے مجسموں اور ان کے فن کے حوالے سے لکھی گئی تحریر
سنگ تراشی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ پہلی تحریر اور پہلی تصویر سنگ تراشی کیذریعے ہی سامنے آئی ہوگی تو کچھ غلط نہیں ہوگا ۔ مجسمہ سازی سنگ تراشی کی ہی ایک ایڈوانس شکل ہے جس میں پتھر کو جہات سے تراشنے کے بجائے پتھر کے ساتھ ساتھ اب میٹل یا چاک کو بھی ایک خاص شکل میں ڈھالا جاتا ہے ۔ یعنی اب ہم پتھر پر کی گئی کیلی گرافی کو سنگ تراشی تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے مجسمہ سازی نہیں کہا جائے گا ۔ زمانہ قدیم میں سارا کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا لیکن پھر جدید زمانے آئے تو صنعتی سطح پر اس کام کو کرنے کے لیے ڈائی سے کام لیا جانے لگا لیکن ظاہر ہے فن ِ مجسمہ سازی میں زیادہ تعداد میں تیار کیے جانے والے کام اور ہاتھ سے کیے گئے انفرادی کام کی ویلیو میں زمین آسمان کا فرق سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں یہ کام آرٹ کے تعلیمی اداروں سے پہلے سینہ بہ سینہ اور فنکار بہ فنکار، نسل در نسل سفر کرتا آیا ہے تاہم دنیا کے کئی دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں اس کام کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہاں مجسمہ سازوں کی تعداد بہت ہی کم ہے ۔
اگرچہ مصوری اور کیلی گرافی بھی سنگ تراشی اور مجسمہ سازی جیسے فنون ہیں لیکن ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ یہ تینوں قابلیتیں کسی ایک شخص میں اکٹھی ہوجائیں ۔ اگر یہ تینوں فنون کسی ایک شخص میں دیکھنے ہوں اور درجہ کمال پر دیکھنے ہوں تو پھر بلا جھجھک منصور زبیری کا نام لیا جاسکتا ہے ۔
پاکستان کے ممتاز مصور ، کیلی گرافر، مجسمہ ساز منصور زبیری29 نومبر 1955 کوپرانا سکھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کا بچپن سکھر ، لڑکپن سرگودھا ،پشاور اور تارو میں بسر ہوا ۔ جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ان کا خاندان کراچی آگیا اور اس کے بعد آج تک کراچی میں ہی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ منصور زبیری کو بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا جبکہ والد ابرار حسین زبیری جو کہ رسالہ(آرمرڈکور) میں تھے، چاہتے تھے کہ منصور زبیری پاکستان آرمی کو بطور کیریئر اپنائیں ۔
منصور زبیری صاحب نے چھٹی کلاس سے ہی اپنے رجحان کے باعث ڈرائینگ بطوراختیاری مضمون اختیار کیا ۔ ان کا دل مختلف اشیا کی ڈرائینگ بنانے کی طرف کھنچتا تھا۔ ایک دفعہ کلاس میں پریکٹس کے طور پر ٹیچر نے جب پانی سے آدھے بھرے گلاس کی ڈرائینگ بنانے کو کہا تو انہوں نے پانی سے آدھے بھرے گلاس میں انسانی آنکھ کا اضافہ کردیا جس پر ٹیچر نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور گھر پر تخلیقی کام کو جاری رکھنے اور کلاس کے اندر صرف اسا ئنمیٹ تک محدود رہنے کی نصیحت کی تاکہ وہ مستقبل میں تخلیقی کام اور کمرشل یعنی آن ڈیمانڈ کام کو توازن کے ساتھ لے کر چلنا سیکھ جائیں ۔ ٹیچر کی اس حوصلہ افزائی نے منصور زبیری کے اندر بیٹھے مصور کو مزید مہمیز دی اور وہ پہلے سے زیادہ مشق کرنے لگے ۔ منصور زبیری نے مصوری اور مجسمہ سازی کی ابتدائی تعلیم سکھر اور پشاور سے حاصل کی اور بعد ازاں کراچی سکول آف آرٹ سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ والد کی پاکستان آرمی سے محبت اور بیٹے کو فوج میں بھرتی کروانے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے منصور زبیری کے دل میں ہمیشہ سے یہ بات جڑ پکڑے ہوئے تھی کہ انہیں افواج پاکستان کے لیے مصوری اور مجسمہ سازی کرکے اپنے والد کے خواب کو اس شکل میں پورا کرنا ہے ۔ قدرت نے اس معاملے میں منصور زبیری کی مدد کی اور ان کو اپنی فنکارانہ زندگی کا پہلا باقاعدہ پراجیکٹ کھاریاں میں ملا۔جہاں انہوں نے گھوڑوں اور ٹینکوں کے مجسمے بنائے۔
مجسمہ سازی کے دوران ایک بہت بھاری مجسمہ ان کے اوپر گرا اور ان کی ٹانگ جگہ جگہ سے بہت بری طرح ٹوٹ گئی ۔ لیکن ظاہر ہے یہ ان کا فن بھی ہے اور شوق بھی۔ لہٰذا انہوںنے اُسی جذبے اور محبت سے اس کام کو جاری رکھا۔
منصور زبیری نے کراچی کی فوجی چھائونی کے علاوہ افواجِ پاکستان کی مختلف فارمیشنز کے لیے بھی مجسمہ سازی کی۔
افواج پاکستان کے لیے بنائے جانے والے مجسمے، جن میں ٹینک ، سپاہی اور دیگر یادگاریں بھی شامل ہیں وہ انہوں نے ہمیشہ نان کمرشل سوچ اور ملی و قومی جذبے کی سرشاری کے عالم میں بنائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اس کام کے دوران ٹانگ ٹوٹ جانے کا کبھی ملال نہیں ہوا ۔ منصور زبیری نے بتایا کہ مجھے مجسمہ سازی کے دوران زخمی ہونے سے لگتا ہے کہ اپنے وطن میں فرض کی ادائیگی میں مجھے یہ زخم تمغے کے طور پر نصیب ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جس طرح ہمارے فوجی جوان اپنے دیس کی حفاظت کے لیے ہر وقت جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں تو بطور مجسمہ ساز اور مصور میں نے بھی افواج پاکستان کے لیے اپنے فن کو پیش کرکے اپنے وطن کا حق ادا کیا ہے ۔
منصور زبیری نے بتایا کہ ان کا پسندیدہ موضوع گھوڑے ہیں ۔ گھوڑوں میں دلچسپی کی وجہ ان کا بچپن ہے جب والد نے ان کو سکول جانے کے لیے ایک گھوڑا لے کر دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ میں دن بھر اس پر سواری بھی کرتا تھا اور اس کے آس پاس رہتا تھا ۔ میری اس سے دوستی تھی ۔ پھر میں نے گھوڑوں کی فطرت ، مزاج اور نسلوں کا مطالعہ کیا تو مجھ پہ کھلا کہ گھوڑا انسان کا ایسا شاندار باوفا ساتھی ہے جو جنگ جیسیکٹھن مرحلے میں اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ یہ بہت باوقار اور تمکنت والا جانور ہے ۔ اس پر سواری کرنے والے کو اسی لیے شہسوار کہا جاتا ہے کہ یہ جانوروں میں کسی پُرجلال شہنشاہ کی طرح ہے۔ اس کے کھڑے ہونے ، اٹھنے ، بیٹھنے اور چلنے یا دوڑنے میں جو حسن ہے وہ کسی دوسرے جانورکو نصیب ہی نہیں ۔ اس کے میل اور فیمیل کی پہچان تمکنت اور نخرے سے کی جا سکتی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ مجسمہ سازی میں سب سے بنیادی شے، اصول یا عنصر کہہ لیں اناٹومی ہے ۔ جب تک کسی مجسمہ ساز یا مصور کو سبجیکٹ کی اناٹومی کی نالج اور سینس نہیں ہوگی وہ کبھی اچھا فنکار نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح تناسب اور carves اینڈ شیڈ بھی بہت اہم ہیں لیکن ایکسپریشن کی اہمیت ان سب سے زیادہ ہے ۔ اصل تصویر تو کیمرے سے کوئی بھی بنا سکتا ہے لیکن مصور کو ظاہری خدوخال میں سبجیکٹ کے باطن کو اجاگر کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن سب سے پہلے اناٹومی کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر ٹینک کا مجسمہ بنانا ہے تو اس کے ہر پورشن کا سائز کیا ہے اور اس کی ڈائمینشن کیا ہے ۔ بیرل کا رخ کس طرف ہے اور اس پر سوار سپاہی کا رخ کس طرف ہے اور کیوں ہے ۔ یہ ایک بہت باریک بات ہے کہ جب تک کوئی مجسمہ پوری ایک کہانی بیان نہ کرے اور اپنے پیغام کو کامیابی سے دیکھنے والے تک پہنچا کے اوراسے متاثر کرکے اپنا مقصد پورا نہ کرے، وہ مجسمہ مکمل نہیں ہوتا ۔ ٹینک یا کسیگاڑی یا جانور یا انسان کے مجسمے میں یہ تک بتانا پڑتا ہے کہ وہ کھڑا ہے ، چل رہا ہے یا تیز رفتاری سے دوڑ رہا ہے ۔ بلکہ گھوڑے کے کانوں کی حرکات سے بتانا پڑتا ہے کہ وہ خطرہ بھانپ چکا ہے اور اب اپنے سوار سے کیا کہنا چاہتا ہے ۔
یہ بات پھر واضح کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ بہت اہم بات ہے کہ ہرمجسمے میں ایک پیغام ہوتا ہے جسے پوری طرح دیکھنے والے تک پہچانا ہی مجسمہ ساز کی کاریگری اور مہارت کا ثبوت ہے ۔ ایک ماہر مجسمہ ساز کو پوسچر کی اہمیت کا پورا پورا شعور ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر ایک سولجر کا پوسچر بتاتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے یا کس حالت میں ہے ۔ حالت امن ہے یا حالت جنگ ۔ اس میں کتنا جذبہ ہے اور وہ کس کیفیت میں ہے ۔ وہ دشمن کے چیتھڑے اڑا دینے کے موڈ میں ہے ، جام شہادت نوش کرنے کے جذبے سے سرشار ہے یا ہرحال میں وطن کے دفاع کے عہد کا اظہار کر رہا ہے ۔
منصور زبیری صاحب روانی سے بولے جا رہے تھے ۔ انہوں نے اپنے لمبے بالوں کو ماتھے سے ہٹا کر بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ ہر مجسمہ ،مجسمہ ساز کی عزت ہوتا ہے اور اپنے تخلیق کار کے مقام و مرتبے کا تعین کردیتا ہے ۔ ہر مجسمے میں ایک پوری تعلیم ہوتی ہے، مجسمہ ایک نصاب کی طرح ہوتا ہے ۔ اگر تو مجسمہ اپنے بنائے جانے کا مقصد پورا کر جائے تو فنکار کو عزت و توقیر نصیب ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر سب کچھ اس کے برعکس ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ افواج پاکستان کے جری اور بہادر سپوت صرف شیر دل جنگجو ہی نہیں ان میں بڑے بڑے لکھاریوں کی طرح مصور بھی موجود ہیں۔ میں نے ان کی پینٹنگز دیکھیں تو ششدر رہ گیا ۔ ان کے پاس مجسمہ سازی کا بھی علم ہے ۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افواج پاکستان کا ہر شیر دل جوان اور ہر بہادر افسر بالکل اس شعر کے مصداق ہیں ۔ لہٰذا میں یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ افواج پاکستان کے لیے مجسمہ سازی کرکے میں نے ایک تو بطور پاکستانی آرٹسٹ اپنا فرض ادا کیا ہے اور دوسرا مجھے خوشی ہے کہ میں نے کسی نہ کسی شکل میں اپنے والد کی خواہش کو پورا کیا ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے