الحمدُﷲہم جس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں وہ سپہ گری کا شعبہ ہے جو میری نظر میں محض اِک پیشہ نہیں عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ذرا سوچیے کتنے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو شہادت کی تمنا لیے اپنا گھربار چھوڑ کر اپنے پیاروں سے دور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے دن رات موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اﷲ کے شیروں کے مصداق راہِ وفا کے پاکیزہ رستوں کی پہرے داری پر مامور ہیں۔ رات کو ان کی آنکھیں جب ارضِ وطن کے دفاع کے لیے اپنی پوسٹوں پہ پہرہ دیتی ہیں تو ان کی موجودگی دشمن کے دلوں میں ہیبت کی علامت بن جاتی ہے۔ کوسوں میل دُور جب شہروں اور گائوں کی فصیلوں میں اہلِ وطن آرام کی نیندیں سو تے ہیں تو انہیں اس بات کا اطمینان ہوتا ہے کہ سرحدوں پہ اُن کے محافظ اُن کی حفاظت جیسی اہم عبادت پر مامور ہیں۔ یقین کیجیے اس سے بہتر عبادت ہو ہی نہیں سکتی اور ہم وہ خوش نصیب ہیں جنہیں ہمارے رحمن رب نے اس عظیم عبادت کے لائق سمجھا اور یہ ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی۔ ہم میں سے ہر ایک سپاہی اپنی مرضی سے مجاہدوں کی صف میں شامل ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سنگلاخ راہ کانٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس راہ میں تکلیفیں اور مصائب ہماری منتظر ہیں۔
مشکلات اور چیلنجز ہر لمحہ ہماری ثابت قدمی اور حوصلوں کو توڑنے کے لیے کوشاں ہیں مگر ہم غازی ہر تکلیف، ہر مشکل اور ہر پریشانی کو ''الحمدُﷲ'' کہہ کر گلے لگاتے ہیں اور ارضِ وطن کے ذرّے ذرّے کی حفاظت کی خاطر جان دینے سے یا جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ شہادت کی تمنّا ہمارے خون میں ایسے شامل ہے جیسے اسلام کے عظیم سپہ سالار وں کی ہر محاذ پہ مانگی گئی دعائوں میں تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ راہِ حق پہ مصائب اور پریشانیوں کی موجودگی ایک فطری عمل ہے۔ کلمۂ حق خواہ طائف کے میدان میں بلند ہو یا اﷲ اکبر کا نعرہ وزیرستان کے محاذ پر دشمن کی صفوں میں یلغار بپا کرنے کے لیے گونجے، مقصد بہرصورت دینِ اسلام کی سربلندی اور اﷲ کریم کی خوشنودی ہے۔
مجاہدینِ اسلام کا وتیرہ ہے کہ وہ مشکل سے گھبراتے نہیں ہیں۔ بھوک ، پیاس ، موسموں کی سختی، گھر سے دُوری ، دشمن سے مقابلہ، الغرض کیسی صورت حال بھی درپیش کیوں نہ ہو وہ جانتے ہیں کہ انہی مشکلات کے دوسرے پار دُنیا اور آخرت کی کامیابی کا پیمانہ ہے۔ جرأت اور جوانمردی سے جب وہ اﷲ کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند لڑتے ہیں تو جسم کی قید سے ماوریٰ ، ان کے سامنے رضائے الٰہی کی خاطر اپنی جان، مال، سکون اور آرام کی قربانی دراصل ایک ایسی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے جس کے حصول کی خاطر وہ سروں پہ کفن باندھے شہادت کی آرزو لیے عدو کی صفوں میں ہیبت کی یلغار بن کر داخل ہوتے ہیں اور کبھی غازی تو کبھی شہید بن کر میدانِ جنگ سے واپس لوٹتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں اﷲ پاک ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا تم خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل کر دیے جائو گے۔ اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی مشکلیں تو پیش ہی نہیں آئیں)ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ صعوبتوں میں ہلا دیے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے پکار اٹھے کہ کب اﷲ کی مدد آئے گی۔ دیکھو اﷲ کی مدد عنقریب آنے والی ہے۔'' (سورة بقرہ ۔ آیت214:)
راہِ حق میں مشکلات کو ثابت قدمی سے سہنا ہی مومن کی پہچان ہے۔ حضرت محمد ۖ کے اعلانِ نبوت کا ابتدائی دور ، مکہ میں صحابہ کرام رضوان تعالیٰ علیہم اجمعین پر کفار کے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم ، حضرت بلال کا سلگتی ریت پر اَحد اَحد پکارنا، الغرض ہجرتِ مدینہ سے پہلے مکہ کی سرزمین پہ آنے والی ساری صعوبتیں گواہ ہیں کہ راہِ حق میں مشکلات آتی ہیں اور جو لوگ ثابت قدم رہتے ہیں وہی فلاح پاتے ہیں۔
حضرت مصعب بن عمیر ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ مکہ میں اپنی دوصفات کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ایک تو آپ بہت خوش لباس تھے اور دوسرا آپ کو خوشبو استعمال کرنے کا بہت شوق تھا۔ آپ کا لباس اس زمانے کا مہنگا ترین لباس ہوا کرتا تھا اور جب آپ مکہ کی گلیوں سے گزرتے تو آپ کی خوشبو سے گلیاں دیر تک معطر رہتیں۔ اسلام قبول کیا تو والدہ شدید ناراض ہوگئیں۔ گھر سے نکل جانے کا حکم ملا تو ساتھ ہی یہ بھی صادرکیاگیا کہ جو قیمتی لباس آپ نے زیب تن کررکھا تھا وہ بھی گھر میں ہی اُتارکر جائیں۔ آپ نے اپنا قیمتی لباس اُتارکر ٹاٹ کے کپڑے سے خود کو ڈھانپ لیا، مگر ثابت قدمی سے اﷲ کے دین پہ ڈٹے رہے اور اسی حالت میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو دارِ ارقم میں صحابہ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔آزمائشوں اور تکلیفوں کے ہر مرحلے کو حوصلہ سے برداشت کیا تو آقائے دو جہاںۖنے مدینہ میں اسلام کی تبلیغ کے لیے حضرت مصعب بن عمیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مامور کیا۔ مدینہ میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگ آپ کی ہی دعوت پر دائرہ ٔاسلام میں داخل ہوئے۔ ثابت قدمی کی معراج دیکھیے کہ غزوۂ اُحد میں اسلام کا عَلَم آپ کو سونپاگیا اور جب شہیدہوئے تو لحد میں جس کپڑے کو آپ کے کفن کے طور پر استعمال کیاگیا وہ چھوٹا نکلا۔ سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہوتے اور پائوں ڈھانپتے تو سرننگا ہو جاتا۔ آخر نبی کریم ۖکے حکم پر حضرت مصعب بن عمیرکے سر کو ڈھانپ کر پائوں پر گھاس رکھ دی گئی اور آپ کو دفن کردیاگیا۔
تاریخِ اسلام حضرت مصعب بن عمیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے عظیم المرتبت صحابہ کرام کے قصوں اور انتہائی مشکل ترین حالات میں ثابت قدمی کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم اسلام کے اور پاکستان کے شہداء کے وارث ہیں۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ہمارے بہادر غازیوں اور شہیدوں نے اپنے لہو سے وفا کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ روزِ روشن کی طرح آج بھی پوری دنیا کے سامنے ہیں اور ہمارے جری جوانوں کی شجاعت اور بہادری کی تمام دنیا معترف ہے۔
آپ خواہ آپریشنل ایریا میں دشمن سے نبرد آزما ہیں یا شہروں میں اپنی سکیورٹی کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہوں یا د رکھیے دفاعِ وطن کی یہ ذمہ داری کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اگر اس میں خلوصِ نیت اور ثابت قدمی شامل ہیں تو آپ کا جاگنا بھی عبادت ہے اور آپ کا سونا بھی عبادت، آپ کا غازی لوٹنا بھی عبادت ہے اور شہید ہونا بھی عبادت ہے۔
جیو تو مثل غازیاں، مرو تو ہیں شہادتیں
اِدھر بھی ہیں عبادتیں، اُدھر بھی ہیں عبادتیں
مشکلات کا خیال دل میں آئے تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی مشکلات کا سوچیئے۔ دنیاوی عیش و آرام کی طلب جاگے تو حضرت مصعب بن عمیرکے کفن کی چادر کا تصور کیجیے ۔ ہم ان شہیدوں کے وارث ہیں جن کی وجہ سے آج بھی ارضِ پاک میں کروڑوں لوگ سکون کی نیندیں سوتے ہیں۔ آج بھی ہمارے بچے چہروں پہ اطمینان سجائے مسکراہٹیں لیے علی الصبح اپنے سکولوں اور کالجوں میں اس پاک دیس کے شاندار مستقبل سے وابستہ اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اقوامِ عالم کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگا۔ ہماری آنے والوں نسلیں یقینا فخر سے ہمارے لہو سے لکھی داستانیں اپنی آنے والی نسلوں کو سنائیں گی۔ آیئے دفاعِ وطن کے لیے اپنا آج اپنی آنے والی نسلوں کے روشن کل کے لیے قربان کرنے کا تجدیدعہد کریں۔ آیئے اپنی دھرتی ماں کی آبیاری کے لیے عہد کریں کہ جب بھی کوئی کڑا وقت آیا ہم میں سے ہر ایک سپاہی مصعب بن عمیر کی روایت کو دہرائے گا اور ہم لہو کے آخری قطرے تک اپنی پاک دھرتی کے مکینوں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری دیانت اور خلوص سے ادا کریں گے اور اپنے فرائض سے کوئی غفلت نہیں برتیں گے۔اﷲکریم ہمارا محافظ اور نگہبان ہو! (آمین)
تبصرے