بیماریوں کی تقسیم مختلف معاشرتی اور عوامی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جن میں انسانی آبادی کی کثافت اور رویہ، کمیونٹی کی قسم اور حیثیت، پانی کے ذرائع، سیوریج کا نظام، زمین کا استعمال او ر نظام آبپاشی، صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، عام ماحولیاتی صفائی اور موسمی عوامل ،درجہ حرارت، نمی اور بارش جو متعدد بیماریوں کی شدت پر اثرانداز ہوتے ہیں، شامل ہیں۔ عوامی عناصر جیسے آبادی کی نشوونما، شہری بنیاد، امیگریشن، زمین کا استعمال اور زرعی عمل، جنگلات کی کٹائی اور بین الاقوامی سفر نے حال ہی میں منتقل ہونے والی متعدد بیماریوں کی دوبارہ افزائش کے لیے بڑی حد تک ذمہ داری اٹھائی ہے۔
کسی ایک علاقے کی آب و ہوا اُس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیںاور ہماری زمین بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے ۔آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو یکسر تبدیل کر دے گی جس سے عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس کے علاوہ موسم میں شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر، بارشیں اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا یہ لوگوں کی زندگیوں، ان کی صحت اور ذریعہ معاش کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی پینل کی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اگر گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو مزید خطرات درپیش ہوں گے۔ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت اور فضا میں نمی کے تناسب میں اضافہ مچھروں اور دیگر حشرات کی افزائش نسل کے لیے بہتر ماحول فراہم کرتا ہے، اس وجہ سے ان کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں نہ صرف حشرات کی تقسیم کو متاثر کرتی ہے بلکہ ان میں موجود وائرس کی تعداد اوربیماریوں کے خطرات میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
درجہ حرارت اور بارشوں میں اضافہ، خصوصاً گرمیوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آلودہ پانی کے ذریعے انفیکشنز کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔علاوہ ازیں اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت سیلاب اور طوفانوں سے مزید تباہی لائے گا۔
اکثر سائنسدانوںکے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے جو ہوا کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوکر سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔علاوہ ازیں فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ، پھیپھڑوں اور دل کے امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
جنگلات زمین کے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سماجی جنگلات ایسے جنگلات ہوتے ہیں جو مقامی لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں دیہی، ماحولیاتی اور سماجی ترقی کو بہتر بنانے کے مقصد کے ساتھ ساتھ جنگلات کا انتظام، تحفظ اور جنگلات کی کٹائی والی زمینوں کی شجرکاری جیسے پہلو شامل ہوتے ہیں۔اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لکڑی ،خوراک، ایندھن کی بڑھتی ہوئی مانگ کے حوالے سے لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درختوں اورپودوں کو اگانا ہے تاکہ روایتی جنگلاتی علاقوں پر دباؤ اور انحصار کو کم کیا جاسکے۔سماجی جنگلات کا مقصد ماحولیات کو بہتر بناکر، قدرتی حسن میں اضافہ اور مقامی استعمال کے لیے جنگلاتی پیداوار کی فراہمی کو بڑھا کر زراعت کو منفی موسمی حالات سے بچانا ہے۔گلوبل وارمنگ کے اثرات کے خلاف جنگ میںدرخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جوں جوں درخت بڑھتے جاتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائڈ استعمال کرتے ہیں اور اس طرح اسے ماحول سے دور کرتے ہیں،سماجی جنگلات کو شہری ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کو کم کرنے کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں، خاص طور پر گرمی کی لہروں، طوفانوں، سیلابوں، خشک سالی وغیرہ کی بڑھتی ہوئی تعداد اور شدت کے حوالے سے کئی طریقوں سے انسانی صحت پر منفی اثر پڑنے کے امکانات ہوتے ہیں۔موسم کی تبدیلی انسانی صحت کے لیے کئی طریقوں سے اہم خطرات پیدا کرتی ہے ۔موسم کی تبدیلی جسمانی ،حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظاموں میں خلل سے متاثر ہوسکتی ہے جس میں یہاں اور دیگر جگہوں پر پیدا ہونے والے خلل بھی شامل ہیں ۔ان رکاوٹوں کے صحت پر پڑنے والے اثرات میں سانس اور قلبی امراض میں اضافہ ، شدید موسم کی تبدیلی سے متعلق بیماری، قبل از وقت اموات، خوراک اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور دیگر متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ، جغرافیائی تقسیم میں تبدیلیاں اور ذہنی صحت کو لاحق خطرات شامل ہیں۔
موسم کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں انتہا، بڑھتی ہوئی آلودگی، ماحولیاتی زہریلے مادوں اور غذائی تحفظ میں تبدیلیاں، یہ سب جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق موسم کی تبدیلی کے اثرات سے 2030 سے 2050 کے درمیان ہر سال تقریباً 250,000 اموات ہو سکتی ہیں۔
موسم کی تبدیلی اور قدرتی آفات ان لوگوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ اور دباؤ کا باعث ہوسکتی ہیںجو بے گھر، اپنے مال و اسباب کے نقصان یا اپنے پیاروں کے نقصان سے گزر سکتے ہیں۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق خودکشی کی شرح میں زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور زیادہ درجہ حرارت ڈپریشن اور دیگر ذہنی صحت کی صورتحال پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ اوکے مطابق موسم کی تبدیلی سے کیڑوں سے پھیلنے والے انفیکشن اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافے کابھی امکان ہے کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلیاں ان موسموں میں اضافہ کر سکتی ہیں جن کے دوران کیڑے انفیکشن منتقل کرتے ہیں۔بڑھتا ہوا درجہ حرارت صحت کے شدید مسائل کی ایک وسیع رینج کا سبب بن سکتا ہے۔ شدید گرمی میں پیدا ہونے والے ہیٹ سٹروک، گرمی کی تھکاوٹ، پٹھوں میں کھنچاؤ اور سانس اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔اس کے علاوہ فضائی آلودگی میں اضافہ صحت کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے ۔ہوا میں دھول ،اوزون اور باریک ذرات یہ سب ہوا کے معیار کو کم کر سکتے ہیں اور صحت کے مسائل کو بڑھا سکتے ہیںجن میںدمہ، پھیپھڑوں کی بیماری، کھانسی اور گلے میں جلن اورپھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ قابل ذکر ہیں۔
گرم درجہ حرارت پولن کی پیداوار میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے جس سے لوگوں میں الرجی کے بارے میں زیادہ حساسیت ، شدید دمہ کے طویل یا زیادہ بار ہونے والے دورے اور سانس کا بگڑنا شامل ہیں ۔گرم موسم اور زیادہ بارش کا امتزاج گھر کے اندر نمی اور پھپھوندی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ حالات سانس لینے میں پریشانی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
موسم کی تبدیلی فصلوں اور خوراک کی پیداوار کو بھی متاثر کرتی ہے۔ کھانے پینے کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے لوگ کم صحت مند غذا اپنا سکتے ہیں۔ ناقص غذا، بھوک اور غذائی قلت کا باعث بن سکتی ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے بعض غذاؤں کی غذائیت میں بھی کمی آ سکتی ہے جبکہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح میں اضافہ اور مٹی میں غذائی اجزاء میں تبدیلیوں کے نتیجے میں بہت سی فصلوں میں غذائی اجزاء کم ہوجائیں گے۔جڑی بوٹیوں اور کیڑوں میں ممکنہ اضافے کی وجہ سے کسانوں کو زیادہ مقدار میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کی ضرورت ہے۔ یہ مادے فصلوں پرکام کرنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ انہیں کھانے والوں کے لیے بھی زہریلے ہو سکتے ہیں۔
حالیہ ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی بیماریاں تمام بیماریوں کا 24فیصد ہوگئی ہیں جبکہ مجموعی اموات میں ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی اموات کی شرح 23فیصد ہو گئی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی بیماریوں کا حصہ 15گنا زیادہ ہے۔ ماحولیاتی خطرات انسانی صحت پر نمایاں اثر ڈالتے ہیں۔ گلوبل ہیلتھ سکیورٹی کانفرنس نے موسمیاتی تبدیلی کو ترقی پذیر ممالک میں صحت کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیاہے، دنیا کے ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے باعث ہائی رسک پر ہیں، پاکستان کی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی سے سالانہ ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب، وبائی امراض اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ ملیریا، ڈینگی، ٹائیفائیڈ، انفیکشن سے پیدا ہونے والی بیماریاں، ڈی ہائیڈریشن، خوراک کی کمی سمیت دیگر مسائل تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بچے جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، ان کے بنیادی اسباب میں ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غذائی قلت جیسے عناصر شامل ہیں۔ تشویش کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ردعمل میں بچوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلائمیٹ فنڈنگ کا محض 2.4% بچوں پر مرکوز سرگرمیوں کے لیے وقف ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ بچوں کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مسائل کے مقابلے میں بہت کم شرح ہے۔
پاکستان میں 2022 کے تباہ کن اور بھیانک موسمیاتی بگاڑ سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور گرد ونواح مییں شعبہ صحت کے حوالے سے بہت سنگین بحران پیدا ہوگئے ہیں۔ صحت کے تقریباً 1400 سے زائد مراکز تباہ ہوئے تھے۔ کیمپس میں رہنے والے پناہ گزین پینے کے صاف پانی سے محروم رہے اور وبائی امراض نے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔ سیلاب کے ٹھہر ے ہوئے پانی مچھروں کی افزائش گاہ بن گئے جو ابھی تک ملیریا اور ڈینگی کا باعث بن رہے ہیں ۔سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان نے غذائی قلت بھی پیدا کی ہے جس سے پاکستان میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ پاکستان بھی دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جو پینے کے صاف پانی کی ناکافی سہولت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ خواتین اور بچیاں موسمیاتی آفت سے مردوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے 2022 کے سیلاب میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین طبی سہولیات ، ادویات اور لاکھوں بچیاں بنیادی اشیاء سے محروم رہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیا ں یا درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک سالی کی وجہ سے غذائیت کی کمی، وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈینگی بخار، ملیریا، کانگو وائرس،ٹائیفائیڈ، ہیضہ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بڑھنا لوگوں کے کام کرنے اور روزی کمانے کی صلاحیت پر بھی ثر انداز ہوتا ہے۔پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے زرعی پیداوار میں کمی، ساحلی کٹاؤ اور سمندری پانی کی دراندازی میں اضافہ جن کی وجہ سے زیر آب آنے والی بستیوں کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار کو تیز کردیا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور نیچے کی طرف آنے والے سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جب کہ ہمالیہ اور ہندوکش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں تقریباً تین ہزارگلیشیئرز جھیلیں بن چکی ہیں جن میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اجتماعی اقدامات اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ موسم اور بیماری کے درمیان تعلق پیچیدہ ہوتا ہے اورعالمی آب و ہوا تبدیلی ایک غیر معمولی امر ہے جو اب انسانی صحت سے متعلق شدید طور پر منسلک سمجھا جاتا ہے۔
پیشہ ورانہ ہم آہنگی اور براہ راست عوام کو اس کے بارے میں آگاہ کرنا اور انسانی صحت کو فروغ دینے کے لیے کاربن کی کمی کی حمایت کر نابہت اہم ہیں۔ مقامی پودوں کا استعمال اور درخت لگانا گرمی کے اثر کو کم کرسکتا ہے۔ پودے عمارتوں کے قریب زمینی درجہ حرارت کو کم کرنے کے ساتھ گرین ہاؤس گیس کے انبار کو کم کرتے ہیں جس سے زمینی سطح پر سموگ کی تشکیل کم ہونیسے انسانی صحت میں بہتری آتی ہے۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں اور نگرانی کے لیے ضلعی سطح کی تربیت بہت اہم ہے۔
مضمون نگار نجی ہسپتال میںبہ حیثیت مائکرو بیالوجسٹ وابستہ ہیں اورمختلف اخبارات میں کالم نگار ہیں۔
[email protected]
تبصرے