کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید تمغہ بسالت کے بارے میں مضموم
دفاع وطن اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہماری مسلح افواج انتہائی احسن انداز سے سرانجام دیتی ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔مسلح افواج کے افسران اور جوان اس کے تحفظ کے لیے دن ہو یا رات ہر وقت تیار رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر سوہنی دھرتی پر اپنی جانیں بھی نچھاور کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔
وطن عزیزکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہر اقبال کے عظیم سپوت کیپٹن خواجہ محمد سروش بھی ان سپوتوں میں شامل ہیں جنہوں نے دفاع وطن کے لیے اپنی جان نچھاور کردی۔ انہوں نے 19 اگست 1994 کو سیا چن میں بیس ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع حاجی پوسٹ گیانگ سیکٹر میں دیدبان OP کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اپنے پیچھے عزم و ہمت اور جرأت و بہادری کی ایک ایسی داستان چھوڑ گئے جس سے پاک فوج کے افسران اور جوان ہمیشہ اکتساب فیض اور رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔
کیپٹن خواجہ محمد سروش 18 مئی 1970 کو سیالکوٹ کے خواجہ الطاف حسین کے ہاں پید ا ہوئے ۔ کیپٹن خواجہ محمد سروش نے ابتدائی تعلیم فیڈرل پبلک ہائی سکول سیالکوٹ کینٹ سے حاصل کی۔ان کا شمار فیڈرل پبلک ہائی سکول سیالکوٹ کے لائق اور ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا۔وہ تعلیمی لحاظ سے تو اپنی کلاس میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن میں ہوتے ہی تھے لیکن ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کرتے ۔ سکائوٹنگ میں ان کی دلچسپی اور لگن کی ہر کوئی مثالیں دیتا۔ ان کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں سے اساتذہ اور طلبہ بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے ہیڈ بوائے کی ذمہ داریوں کو انتہائی شاندار طریقے سے سرانجام دیا اور متعدد انعامات اور ستائش حاصل کی اور سکول میں اپنے مثالی کردار کی وجہ سے خوب پہچان بتائی اور جب انہیں جونیئر کیڈٹ بٹالین اور پاکستان ملٹری کاکول ایبٹ آباد میں عسکری تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا تو یہاں بھی انہوں نے اپنی خدداد صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔4 دسمبر 1990کو آرٹلری رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ شمولیت اختیارکی اور عملی زندگی کا آغاز ایک بہادر اور فرض شناس افسر کے طور پر کیا۔انہیں جب 1994 میں سیاچن جانے کا حکم ملا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے عملی طور پر مادر وطن کے دفاع کے لیے کوئی نمایاں خدمت کر سکیں۔
کیپٹن خواجہ محمد سروش کے چھوٹے بھائی خواجہ محمد غازی نے اپنے بھائی کے بارے میں بتایا کہ شہادت کے فوراً بعد سروش بھائی کی شہادت کے بارے جو تفصیلات سامنے آئیں وہ ہم سب کے لیے بڑی حوصلہ افزا اور قابل فخر تھیں اور پھر کچھ عرصہ بعد سروش بھائی کے کئی افسران اور جوانوں نے ان کے بارے میں جو تفصیلات بتائیں ان کی وجہ سے ہمارا سر فخرسے مزید بلند ہو گیا۔جس چیک پوسٹ پر سروش بھائی ساڑھے تین مہینے تک او پی(OP) کی ڈیوٹی دیتے رہے وہاں موسم کی شدت کی وجہ سے عام طور پرافسروں اور جوانوں کو دو یا حد تین ہفتوں کے لیے ہی خدمات سرانجام دینے کے لیے بھیجا جاتا اور اس کے بعد انہیں واپس بلا لیا جاتا ہے اور تازہ دم افسروں اور جوانوں کو ذمہ داری دی جاتی ہے۔ لیکن کیپٹن سروش شہید نے بار بار اپنے افسران سے درخواست کرکے اس عرصے کو ساڑھے تین ماہ تک اس پوسٹ پر ایک ہی ڈیوٹی کے لیے رضا مند کئے رکھا۔ کیپٹن سروش زیادہ عرصہ یہاں خدمات سرانجام دینے کا جواب یہ پیش کرتے تھے کہ انہیں اس پوسٹ پر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے چونکہ دشمن کے تمام ٹھکانوں کا علم ہو چکا ہے اس لیے روزانہ دشمن کے ان ٹھکانوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے بنوا کر گولہ باری کرکے بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچانے کاموقع مل رہا ہے جو شائد زندگی میں دوبارہ نہ مل سکے۔اس لیے ان کا اس اہم ڈیوٹی سے کسی دوسری جگہ جانے کو دل نہیں کرتا۔ حسن اتفاق دیکھیے ان کی ڈیوٹی کا آخری دن بھی آگیا اور ان کی جگہ نیا او پی بھی آ چکا تھا۔ لیکن کیپٹن سروش اس آخری دفعہ بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے بے تاب تھے۔ 19 اگست 1994کو جمعتہ المبارک کا دن تھا چیک پوسٹ پر ڈیوٹی دینے سے قبل کیپٹن سروش نے وضو کیا تاکہ ڈیوٹی ختم کرکے جمعہ کی نماز کی ادائیگی کر سکیں۔ اللہ کا نام لے کر انہوں نے او پی پر جاکر فائرنگ کروانا شروع کردی اور دشمن کو حسب روایت بھاری جانی ومالی نقصان پہنچانا شروع کردیا ۔ لیکن قدرت کو ان کی شہادت مطلوب تھی جو ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ دوپہر ساڑھے بارہ بجے اچانک دشمن کا ایک گولہ براہ راست انہیں آلگا۔ گولہ ان کے سر کے قریب لگا اور ساتھ ان کا جسد خاکی دشمن کے علاقے میں گلیشیئر سے نیچے جاگرا۔شہید کا جسد خاکی دشمن کی شدید فائرنگ کے باوجود ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس لایا گیا۔شہید سروش کی نماز جنازہ سکردو بیس کیمپ،پھر جہلم میں ان کی اپنی یونٹ میں اور آخر میں شہر اقبال میں ان کے آبائی قبرستان بابل شہید میں پڑھائی گئی ۔
شہید کی والدہ محترمہ کہتی ہیں کہ ان کے کانوں میں آج بھی ان کی یونٹ کے لیفٹیننٹ کرنل ابرار لقمان کے الفاظ گونج رہے ہیں کہ کیپٹن خواجہ محمد سروش جیسے لوگ پاکستان کے محسن ہیں۔مسز سلمہ الطاف حسین کیپٹن سروش شہید کے ان ساتھیوں کا بھی ذکر ضرور کرتی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی بازی لگاتے ہوئے شہید سروش کے جسد خاکی کو واپس لانا ممکن بنایا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ پاک فوج کے تمام جوانوں اور افسران پران کو فخرہے جو دنیا کے مشکل ترین محاذ پر ملک کا جرأت و بہادری سے دفاع کر رہے ہیں۔
سیاچن کے اس عظیم شہید کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے اور نئی نسل کو کارناموں سے آگاہ کرنے کے لیے پاک فوج کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ اور شہریوں کی تنظیموں کی طرف کیے جانے والے اقدامات پر شہید کیپٹن سروش کے خاندان اور دوست احباب انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ افواج پاکستان نے سیاچن کے محاذ پر ان کی یادگار قائم کی اور دنیا کی بلند ترین آرٹلری پوسٹ ان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ان کے آبائی شہر سیالکوٹ میں بھی کشمیر روڈ پر واقع مین چیک پوسٹ ان کے نام سے منسوب کی گئی جبکہ شہید کی یونٹ نے سیالکوٹ کینٹ میں پہلے سے موجود جامع مسجد کی تعمیرومرمت کرکے اسے اپنے عظیم شہید کیپٹن خواجہ محمدسروش کے نام سے منسوب کیا تو اس کی افتتاحی تقریب کی رسم 20 جولائی 2007 کو رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر کرنل محمد انور اور شہید کیپٹن خواجہ محمدسروش شہید کے والد محترم خواجہ الطاف حسین نے اپنے چھوٹے بیٹے خواجہ محمد غازی اور اپنے تین سالہ پوتے خواجہ محمد سروش عبداللہ کے ساتھ ادا کی۔میونسپل کارپوریشن سیالکوٹ کے ایڈمنسٹریٹر کیپٹن ریٹائرڈ ہاشم خان ترین نے شہید کے آبائی علاقے ماڈل ٹائون سیالکوٹ میں مارکیٹ روڈ اور پارک کو بھی ان کے نام سے منسوب کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جے سی بی میں جو کمرہ ان کے زیر استعمال رہا اسے بھی شہید کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ گذشتہ برس جنوری میں لاہور میں ڈی ایچ اے کے وائی بلاک میں تعمیر کردہ پارک کو بھی شہید سے منسوب کیا۔اُن کے بھائی خواجہ محمد غازی اور ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیر وحید گل ستی نے اس کا افتتاح کیا۔
کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید کے والد محترم خواجہ الطاف حسین جو 13 فروری 2012 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔ وہ اپنے بیٹے کی شہادت پر ہمیشہ بڑا فخر اور ناز کیا کرتے تھے اور شہید کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات میں وہ جس حوصلے اور دلیری سے اپنے بیٹے کی زندگی اور پھر ان کی شہادت کے حوالے سے گفتگو کرکے حاضرین محفل میں ملک و قوم کی جان کی پرواہ کیے بغیر خدمت کا جذبہ پیدا کرنے میں کمال کی قدرت رکھتے تھے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الااللہ کے نعرہ کے خالق پروفیسر اصغر سودائی نے کیپٹن سروش شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسے شہر اقبال کا بہادر شہید قرار دیا اور کہا کہ''مسلمان جب خم ٹھونک کر میدان جہاد میں نکلتا ہے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کے دل تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے دل میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کو جان آفریں پر نچھاور کر کے اس کی جلوہ گاہ خاص میں اعلیٰ و ارفع مقام حاصل کر لے۔ ہمارے شہر کا ایک خوبصورت، تنومند، پر جلال اور شکوہ قلندر کا حامل کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید بھی ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جو جام شہادت نوش کر کے بقائے دوام کی مسند پر براجمان ہو١ہے۔زندگی بلاشبہ ایک نعمت ہے اور اس نعمت کو غیر مرقبہ اور لازوال بنانا ہو تو اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں کہ اسے خدا کی راہ میں نذرانے کے طور پر پیش کر دیا جائے ۔
اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ''اگرچہ کسی عزیز کی رحلت اور دائمی جدائی کا صدمہ ناقابل برداشت امر ہے لیکن وہ شہادت کے اس بلند مرتبہ پر فائز ہوئے جو ہر مسلمان سپاہی کا مقصد حیات ہے''۔اسی طرح اس وقت کے ڈائریکٹرجنرل آرٹلری میجر جنرل محمد حسن عقیل نے اپنے پیغام میں کہا کہ کیپٹن سروش کی شہادت پر جہاں ہمیں ایک قابل اور فرض شناس افسر سے محرومی پر دکھ ہے وہیں اس کی قابل رشک موت پر فخر بھی ہے کہ انہوں نے عارضی زندگی کو خیر باد کہتے ہوئے اللہ کی شہادت جیسی نعمت عظمیٰ کو مقدم جانا اور اپنے خالق حقیقی کے نزدیک ابدی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی کے مستحق قرار پائے۔ ان کی پیشہ سے لگن فوج کے لیے ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوگی۔''
تعارف : مضمون نگار شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔
تبصرے