قوموں کو اپنے نظریاتی خد و خال بنانے اور ان کو اجاگر کرنے کے لیے صدیوں کا سفر درکار ہوتا ہے ۔ تاریخ میں وہی قومیں عظیم قومیں بن کر سامنے آئیں جو بڑے گردابوں اور طوفانوں کو سہہ کر اور ان کا مقابلہ کرکے ڈٹ کر کھڑی رہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تصورِ حکمرانی والے مکار انگریز حکمرانوں کو اگرچہ برصغیر کے مسلمانوں اور ان کے دوقومی نظریے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے لیکن ان کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف کبھی دور نہیں ہوسکا ۔ وہ ہندوئوں کو آج بھی مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں اور انہیں اپنا حصہ سمجھتے ہیں ۔ خاص طور پر بنیاد پرست انگریزوں اور انتہا پسند ہندوئوں کے بیچ مسلمان دشمنی آج بھی مشترکہ بندھن ہے ۔ ایک تو اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشی جنگیں کرکے اور مسلمانوں سے اقتدار چھین کر برصغیر پر قابض ہوئے اور دوسرا یہ کہ 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں نے ہی ان کے خلاف لڑی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ تحریک آزادی کے بعد تقسیم کے وقت مسلمان مملکت کے خلاف طرح طرح کی بارودی سرنگیں پہلے سے ہی بچھا کر رکھ دی گئی تھیں ۔
بنیاد پرست انگریزوں کے ساتھ انتہا پسند ہندو بھی تحریک ِ آزادی کے نتیجے میں بننے والے آزاد ملک کو ہندوؤں کا ملک سمجھ رہے تھے جس میں مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوں کو انگریزوں کے تسلط سے نکل کر ہندوئوں کے تسلط میں جانا تھا ۔ اگرچہ مؤرخین تقسیم کی نوعیت کو بدلتے ہوئے اس بٹوارے کی وجوہات کو کانگریس کے تسلط کی خواہش اور نہرو کی منصوبہ بندی قرار دیتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قائدِ اعظم بھی بھانپ گئے تھے کہ کانگریس، ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی کا مطلب محض ہندوں کی آزادی سمجھتے ہیں اور ایک ایسا آزاد ہندوستان قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی قومی زبان ہندی ہوگی اور اس میں گائے کی قربانی پر پابندی ہوگی ۔ سو قائد ِ اعظم نے صاف صاف کہہ دیا کہ مسلمان اور ہندو، دومختلف العقیدہ قومیں ہیں جن کا دین اور کلچر مختلف ہے اور یہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ قرارداد مطالبہ پاکستان کی جانب پہلا قدم تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اس منصوبے سے، جو اس سے پہلے چوہدری رحمت علی دے چکے تھے، پوری طرح متفق ہوچکے تھے بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ قائد اعظم کی زیرک لیڈرشپ تھی کہ ان کی سوچ اور نظریہ ان کے رفقائے کار کے انگ انگ سے پھوٹ رہا تھا ۔ انہوں نے کانگریس کے سازشی منصوبے کو بھانپتے ہوئے ایک آزاد مسلمان مملکت کے تصور کو حتمی فیصلے میں بدل دیا ۔ قائد ِ اعظم کی سوچ اور ویژن کے مطابق درج ذیل نکات میں پوری ایک کتاب کو سمیٹا جاسکتا ہے ۔۔۔۔
1۔ پاکستان کا قیام بنیادی طور پر مسلمانان ہند کے حقوق اور مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے آخری آپشن کے طورپر عمل میں آیا۔ اس سلسلے میں 'اسلام' بیشتر ایک تہذیبی عامل کی حیثیت سے محرک رہا۔
2۔ مذہب کا کٹر مولویانہ فہم و تصور علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پیش نظر نہ تھا۔
3۔ قائد اعظم اپنے سیکولر اپروچ کے ساتھ مذہب کی بجائے دین کے اعلی اقدار و اخلاقی روایات کی اہمیت و افادیت کے بھی خلوص دل سے قائل تھے۔
4۔ قائد اعظم اگر کچھ سال مزید زندہ رہتے تو قوی امید ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی خدا داد صلاحیت، تدبر، حقیقت پسندی اور خلوص کی بنیاد پر پاکستان کے لیے ایک ایسا دستوری اور انتظامی نظام مرتب کرواتے جو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ دین کے اعلی اقدار و روایات کا متوازن امتزاج ہوتا۔ اور یوں پاکستان ایک ایسی جدید فلاحی مسلمان ریاست بنتا جو روشن خیال بھی ہوتا اور یہاں کے کلچر اور اخلاقی و روحانی اقدار کا امین بھی ہوتا۔ آج بھی قائد اعظم کا پاکستان کے جدید اسلامی فلاحی ریاست ہونے کا تصور ہمارے لیے مشعل راہ اور وے فارورڈ ہے ۔
قائداعظم جیسا صاحب بصیرت اور صاحب استقامت لیڈر ٹھان چکا تھا کہ اب مسلمانوں کی الگ ریاست بنے گی اور وہ یہ بھی طے کرچکے تھے کہ اس کے خدوخال کیا ہونگے جوکہ اوپر نکات کی صورت میں بیان کیے جا چکے ہیں ۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ اپنی کتاب( فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ )میں بھی لکھتی ہیں کہ اکثر مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ایک تصور تھا، حقیقت نہ تھی۔ بڑے بڑے مسلمان لیڈروں کا بھی یہ خیال تھا کہ کسی قسم کا باہمی سمجھوتہ ہو جائے گا اور وہ متحدہ ہندوستان کے اندر اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں گے۔شروع شروع میں قائد اعظم کا بھی یہی خیال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اکتوبر 1941 میں ان سے ملی تو انہوں نے کہا کہ کینیڈا کا آئین ہمارے لیے مسائل کا بہترین حل ہے۔ قرار داد پاکستان کے سات سال بعد تک ایک طرف برطانوی حکومت اور دوسری طرف کانگریس سے وہ باہمی سمجھوتے کی بات کرتے رہے اور اس دوران میں ایک سے زائد بار تقریباً سمجھوتہ ہو بھی گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دو ٹوک بٹوارہ نہیں چاہتے تھے۔ باہمی سمجھوتے میں ناکامی ہوئی تو اس کی ذمہ داری قائد اعظم پر نہیں کانگریسی لیڈروں کی تنگ دلی اور تعصب پر تھی۔
قائد اعظم کے اسی مؤقف کی تائید'' مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا'' از زاہد چوہدری و حسن جعفری کے صفحہ 325 پر بھی ہوتی ہے جس میں 14 اگست 1947 کو کراچی کے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب قائد اعظم آزادی کی تقریب میں تشریف لائے تو نیویارک ٹائمز کے نمائندہ نے انہیں کہا کہ'' میں آپ کومبارکباد پیش کرتا ہوں آخر کار آپ نے پاکستان حاصل کر ہی لیا۔''قائد اعظم نے یہ سن کر کہا: '' میں نے اکیلے پاکستان حاصل نہیں کیا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں میرا ایک روپے میں دو آنے کا حصہ تھا۔ اس تگ و دو میں برصغیر کی مسلم قوم کا حصہ روپے میں چھ آنے کے برابر تھا اور قیام پاکستان میں اس برصغیر کی ہندو قوم کا حصہ روپے میں آٹھ آنے کے برابر تھا۔''
شوکت علی شاہ 14 اگست 2018 کو نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالم بعنوان 'قیام پاکستان سے استحکام ِ پاکستان' میں رقم طراز ہیں ، برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا پالا دو شیطانوں سے پڑا تھا۔ ایک وہ جو اپنی ایمپائر کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت اور حسرت سے تک رہا تھا اور دوسرا ہزار سال کی غلامی کا بدلہ چکانے کیلئے سنہری سازشوں کے جال بن رہا تھا۔ انگریز موجودہ مسلمانوں سے پرخاش رکھتا تھا۔ ایک تو اقتدار اس نے ان سے ہتھیایا تھا اور دوسرا 1857کی جنگ آزادی بھی بنیادی طورپر انہوں نے لڑی تھی۔ دراصل جب سلاطین طاس ورباب کے رسیا ہو جائیں اور رنگیلے ایں دفتر بے معنی غرق مئے ناب اَولی، کا ورد کرنے لگیں تو شکست ذلت اور رسوائی مقدر بن جاتی ہے۔
انگریز شدید خواہش اور ہندو تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کا قیام نہ روک سکے۔ آزادی کی راہ میں ایک قلزم خوں تھا جسے عبور کرکے ہم یہاں تک پہنچے۔ ان گنت لوگ سربریدہ ہوئے۔ جوان جسم خاک اور خون میں غلطیدہ ہوئے۔ بوڑھے باپوں کی کمریں کمان بنیں، عصمتیں لٹیں، مائوں نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے شیرخوار بچوں کو نوک نیزہ پر سوار دیکھا ۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی جن مسائل کا شکار ہے، یہ امتحان اور یہ گرداب اسی لیے ہیں کہ ہمیں ان سب سے نکل کر ایک عظیم قوم اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بننا ہے ۔ وطن عزیز پر آنے والی ہر مشکل ہمارے حوصلوں کو بلند کرتی اور ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ابھی ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی ۔ دوسری طرف بھارت میں آباد مسلمانوں کی حالت ِ زار دیکھنے والی ہے ۔ ہم اپنی تمام تر اندرونی لڑائیوں اور اختلافات کے باوجود اپنے ملک، اپنے وطن میں بیٹھے ہیں۔ آج کیبھارت میں رہنے والے مسلمان آئے دن ہندو بربریت کا شکار ہوتے ہیں ۔ بھارت سے جاتے جاتے جو استعمار مسلمانوں کو دانستہ مسائل میں پھنسا کر گیا تھا وہ اب اس ایٹمی طاقت پاکستان کو پنپتے کیسے دیکھ سکتا ہے ۔ لیکن یہ خدائے بزرگ و برتر کی عطا کی گئی ریاست ہے جو تمام تر نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے پورے وقار کے ساتھ سربلند رہے گی اور یقینا قیام پاکستان کا سفر استحکام پاکستان تک جاری رہے گا ۔ ہمیں بحیثیت ِ قوم یہ بھی پتہ ہے کہ ابھی نہ جانے کتنے بھنور ، کتنے طوفان راہ میں حائل ہونے ہیں اور ہمیں اپنے رب پر ایمان اور اپنے وطن سے محبت کے سہارے ان سب سے گزر کر ترقی کی منازل طے کرنا ہیں ۔
سفر کٹھن ہے مگر ہمتیں جواں اپنی
بنا کے سب کو دکھائیں گے کہکشاں اپنی
رکاوٹیں بھی ہیں واقف ہماری ٹھوکروں سے
ہے منزلوں کو بھی سب یاد داستاں اپنی
وطن کے بخت میں حال نہیں ہے حد ِ نگہ
ہمیں پتہ ہے، ہے رکھنی نظر کہاں اپنی
یہ ہم وہی ہیں جو پرچم بلند رکھتے ہیں
ہمی تو ہیں جو فدا کرتے آئے جاں اپنی
ہمیشہ قائم و دائم رہے گا پاکستان
ہمیشہ عالی و ارفع رہے گی شاں اپنی
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے