ریاستِ مدینہ ایک بڑی ہجرت کے بعدمعرضِ وجودمیں آئی۔ اس نظریاتی ریاست کے سپہ سالارِ اعظم ،تاجدارِ ختم نبوت، محمد مصطفی ۖنے نظامِ حکومت چلانے کے لیے جو اُصول وضع فرمائے ، وہ دنیا بھر میں آج بھی قابلِ عمل ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے استحکام اور بقاء کے لیے مسلمانوں نے سروں سے کفن باندھ کر اس کا دفاع کیا۔ قریشِ مکہ کی چال بازیوں اور مکاریوں کا ڈٹ کرسامنا کیا۔ تاریخ گواہ ہے چشم فلک میں وہ سماں کتنادل فریب ہو گا جب حُسنِ کائنات،تا ج دار ارض و سما ، محبوبِ کبریا حضرت محمدمصطفی ۖ نے ارشاد فرمایا ''مجھے ہندکی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا محسوس ہو رہی ہے''۔ صحابہ کرام نے استفسارفرمایا کہ ہند کدھر ہے؟ شق القمر کا معجزہ رکھنے والی انگشت پاک نے ایک پہا ڑی کی طر ف اشارہ کیا کہ یہ پہاڑی اس جانب ہے۔آج اِسی پہا ڑی کو ''جَبلِ ہند ''کہتے ہیں۔ مصوّرِپاکستان، شاعرِ اسلام ،حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اس بات کو لفظوں کا جامہ کچھ یوں پہنایا
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کر جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عرب ۖ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
آپ ۖ کے دور سے ہی '' ہند '' میں وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ کیرالہ (ہند)کے رہنما چرمن رومیل کا اپنے وفد کے ساتھ سرورِ کائنات ۖ کے حضور پیش ہوکر اسلام قبول کرنا اور پھر دینِ محمدۖ کے نام سے اسلام کی تبلیغ کرنا بھی قابلِ ذکر ہے ۔ خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی اسلامی وفود ہند آتے رہے۔ اسلام کی کرنوں سے ہند جگمگانے لگا۔ المختصر یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے 10رمضان المبارک 92ھ (712ء )میں راجہ داہر کو شکست دے کر '' باب الاسلام '' کو رونق بخشی۔ اسلام کی کلیاں گلستان امت محمدیہ کو معطرکرنے لگیں۔حالات کے تغیر و تبدل رونما ہو تے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سر فروشانِ اسلام کو اسلامی نظریۂ حیات کے بل بو تے پر26-27رمضان المبارک1366ھ کی درمیانی شب(14اگست 1947ئ)کو ایک خود مختار مملکت عطا فرما ئی، جسے پاکستان کہتے ہیں۔ریاستِ مدینہ کی ہجرت کے بعد پاکستان کا قیام بھی ایسی ہی ہجرت کے نتیجے میں ہمیں ملا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمان اپنے ہی گھر میں غلام بن گئے۔ قدرت جب کسی خطے پر مہربان ہوتی ہے تو وہاں عوام الناس کی رہنمائی کے لیے نیک اور صالح مسلمانوں کی قیادت مہیا کر دیتی ہے ۔ اصول فطرت ہے کہ اندھیرے دم توڑتے ہیں تو نوید سحر ہوتی ہے یعنی صبح اندھیروں کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ فطرت لالے کی حنا بندی خود کرتی ہے۔ کائنات ارضی پر جب انسانیت دم توڑنے لگتی ہے تو خالق کائنات انسانوں کی رشد و ہدایت کا اہتمام کرتا ہے۔
مسلمان جب تک قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے وہ فاتح کی حیثیت سے پوری دنیا پر چھائے رہے۔ایمان کی حرارت والوں نے نعرۂ تکبیر بلند کر کے باطل کے محلات میں زلزلے طاری کر دئیے لیکن جونہی مسلمانوں نے تعلیمات حق سے رو گردانی کی' انھیں ندامت کے دن دیکھنا پڑے۔ مسلمانوں نے لمحات میں غلطیاں کیں اور صدیوں کی سزا پائی۔ وہ اپنے ہی ممالک میں دوسری قوموں کے زیر اثر محکوم زندگی بسر کرنے لگے اور آخر کار برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان اپنی کوتاہی اور دین سے دوری کی وجہ سے انگریزوں کے دست نگر بن گئے۔مسلم اقتدار کا چراغ گل ہو گیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھ کر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ سرسید احمد خان میدان عمل میں آئے اور فرائض سے غافل خوابیدہ قوم کو بیدار کیا۔ مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور علامہ محمد اقبال جیسے شاعروں کے کلام نے مسلمانوں کی مردہ رگوں میں خون زندگی دوڑا دیا۔اقبال کی طویل نظموں نے مسلمانوں میں جذبۂ حریت اُجاگر کیا۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھی جانے والی نظمیں مسلمانوں کے لیے پیغامِ عمل ثابت ہوئیں۔ برصغیرپاک و ہند میں ہر آنے والا دن ایک نئے پیغام کی صورت میں سامنے آیا۔ ایک طرف اقبال اور قائد کے نظریات تھے اور دوسری طرف مختلف مخالف قوتوں کی ریشہ دوانیاں جاری تھیں۔1885ء میں بننے والی انڈین نیشنل کانگریس کا چہرہ بہت جلد بے نقاب ہو گیا۔مسلم قائدین نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل کر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم عطاء کیا۔ تحریکِ پاکستان نے اس وقت زور پکڑا جب ہمیں اسلامی جذبوں کے عظیم شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (1938ء ۔1877ء )اور مسلمانوں کے مسیحا حضرت قائداعظم محمد علی جناح (1948ء ۔1876ء )نے اصولوں کی میز پر انگریز حکومت کو ہر دفعہ شکست دی۔ محمد علی جناح نے ہر عوامی جلسے میں اپنے فکری نظریات پیش کیے۔ چند اقتباس ملاحظہ ہوں:
• کردار کسے کہتے ہیں؟ کردار کا مطلب ہے عزتِ نفس، خودداری ، ارادے کی پختگی اور دیانت داری، ان تمام خصوصیات کا بدرجہ اتم موجود ہونا کردار کی بلندی ہے ۔ قوم کے اجتماعی مفاد کے لیے افراد کا اپنے آپ کو قربان کردینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا درحقیقت کردار کی بلندی کی علامت ہے ۔ (مسلم کنونشن ، دہلی،17اپریل 1946ء )
• پاکستان کی حکومت کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ غریب لوگوں کا معیار زندگی بلند کرے اور زندگی بلکہ بہتر زندگی سے شاد کام ہونے کاسامان بہم پہنچائے۔
(اجلاس مسلم لیگ ، لائل پور (فیصل آباد)، 18نومبر1942ء )
• اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات و ادبیات کس امر پر شاہد ہیں؟دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ (اجلاس مسلم لیگ لکھنؤ،31دسمبر1916ء )
• میرے خیال میں مسلم تاجروں کی بہتری کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں بنتی کہ وہ ہر ممکن طریقے سے اقتصادی تنظیم پید اکریں۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے صنعتی اور تعلیمی ادارے قائم کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنی قوم کو منظم کرنا ہوگا۔ (میمن چیمبر آف کامرس ، بمبئی، 27مارچ 1947ء )
• اسلام انصاف، مساوات ، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آجائیں، ان کے ساتھ فیاضی کو بھی روارکھتاہے ۔ (مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ ، 2نومبر1940ء )
• قرآن مجید ،مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے ۔ مذہبی، سماجی، شہری، کاروباری، فوجی ، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطۂ حیات جو مذہبی تقریبات سے لے کر روزمرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر جرم تک ، اس دنیا میں جزا اور سزا سے لے کر اگلے جہاں تک کی سزا و جزا تک کی حد بندی کرتاہے۔ (پیامِ عید،1945ء )
• مسلم لیگ کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں کی علیٰحدہ قومیت کو برقرار رکھا جائے۔ (اجلاس مسلم لیگ لکھنؤ،31دسمبر1916ء )
• ہندو مسلم سمجھوتہ ہندوستان میں کوئی نیا دستور نافذ کرنے سے پہلے کا ایک ضروری اور ناگزیر اقدام ہے ۔ (گول میز کانفرنس ،1931ئ)
• مذہب، ثقافت، نسل ، زبان، آرٹ، موسیقی وغیرہ کے امتزاج سے ایک اقلیت مملکت کے اندر بالکل ایک جداگانہ چیز بن جاتی ہے ۔ (مرکزی اسمبلی ،7اپریل 1935ء )
• ہمیں چاہیے کہ خود کو منظم کر کے آزادی کے لیے قدم آگے بڑھائیں۔ (اجلاس مسلم لیگ، بمبئی 12اپریل1936ء )
حریت پسند مسلمانوں نے سروں پرکفن باندھ کر آزادی کے حصول کے لیے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا شروع کر دیا۔ انگریزوں نے ہندوئوں اور سکھوں کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کو کچلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آزادی کے متوالے تینوں قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہو گئے۔ انگریزوں کی مکاریاں ' ہندوئوں کی چالاکیاں اور سکھوں کی پالیسیاں دم توڑ گئیں۔ قائداعظم محمد علی جناح بیرسٹر بن چکے تھے اور علامہ محمد اقبال پی ایچ ڈی، ڈاکٹر کے طور پر سامنے آئے۔ دونوں ہی مسلمانوں کی پسماندگی پررنجیدہ تھے لیکن دونوں کا ایک مشترکہ نعرہ لگن ، اُمید ، جہدِ مسلسل، یقینِ محکم اور عملِ پیہم نے مسلمانوں میں آزادی کاجذبہ اُجاگر کیا۔ 1905ء ہند سرکار نے ہندئووں کو خوش کرنے کے لیے بنگال کی تقسیم کرڈالی لیکن پہلی جنگِ عظیم کے خوف سے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے 1911ء میں تنسیخ ِبنگال کااعلان کردیا۔
پہلی جنگ عظیم کا آغاز و اختتام' جلیاں والا باغ کا حادثہ ' تحریک خلافت' نہرو رپورٹ' جس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات 'سامنے آئے۔ فلاسفر اور دانشور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد(1930ء ) میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا خاکہ پیش کر کے مصورِ پاکستان ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اپریل 1935ء میں انڈین نیشنل ایکٹ کا نفاذ ہوا جس کے تحت کانگریس کو الیکشن میں برتری حاصل ہوئی اور کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ شاعرِ مشرق اقبال کے خطوط بنام قائداعظم نے ایک نیا رخ موڑ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے نمائندہ لیڈر کے طور پر اُبھرے۔ دوسری جنگِ عظیم(1945ء ۔ 1935ئ) مسلمانوں کے لیے ایک چھپی ہوئی نعمت ثابت ہوئی۔ انگریز سرکار نے کانگریسی وزارتیں ختم کر دیں ۔ اس دوران مسلمانوں کو اپنا مشن تیز کرنے کا موقع ملا۔ یہ عرصہ ہندوئوں پر آگ برسانے لگا۔ 21اپریل 1938ء کو ہمارے قومی شاعر اللہ کریم کو پیار ے ہوگئے لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے اُن کے خواب کی تکمیل کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ۔ اپنے تو اپنے تھے اُنھوںنے غیروں کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا ۔ زندگی کا ہر شعبہ بیدار ہو گیا۔ اہلِ صحافت اور علمائے کرام اپنے عظیم قائد کے شانہ بشانہ کام کرنے لگے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی پوری ٹیم قائد واقبال کے نظریات پر متفق ہوکر آگے بڑھنے لگی۔
22مارچ1940ء جمعة المبارک سہ پہر بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے مقاصد کو واضح طور پر پیش کر دیا۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمان 23مارچ 1940ء کو سوئے منزل چلے ۔ نتائج سے بے خوف ' زندگی آزادی کے سپرد کرنے والے ' اذان حق کے پرستار' قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ ''بن کے رہے گا پاکستان' لے کے رہیں گے پاکستان' پاکستان کا مطلب کیا'' جیسے نعرے لبوں سے نہیں' دل سے بلند ہو رہے تھے۔ وقت کا دھاراگواہ ہے کہ قوت ہار گئی اور جذبے جیت گئے۔ منٹو پارک لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں مسلمان ایک جھنڈے تلے اکٹھے ہوئے۔ شیر بنگال چودھری فضل الحق نے قائد اعظم کی تقریر کی روشنی میں ایک قرارداد پیش کی اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے خواب کو تعبیر مل گئی' مایوسی سے بند ہوتی آنکھوں کو تنویر مل گئی۔یہ حقیقت ہے کہ جب بھی مسلمان متحد ہوئے وہ ہر جگہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے لگے۔
23مارچ1940ء کو پیش کی جانے والی قرارداد تاریخ عالم میں پہلی قرارداد ہے جس نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی اور ظلمت کے اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قوم کو آزادی کی روشنی عطا کی۔ اندھیرے سے اجالے تک کے اس سفر میں مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا' اُن کا تصور ہی دل دہلا دینے کو کافی ہے۔ مسلمانوں کو آگ و خون کا دریا عبور کرنا پڑا' عورتوں کی عصمت دری کی گئی' بھائیوں کے سر تن سے جدا کر دئیے گئے' کتنے معصوم بچے یتیم ہوئے' کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں۔ مسلمان قوم نے ایک آزاد مملکت پانے کے لیے جذبۂ ایمان سے سرشار ہو کر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا۔ 23مارچ 1940ء ہمارا نشانِ منزل ثابت ہوا۔ قیامِ پاکستان تک مخالف قوتوں نے کئی حربے استعمال کیے لیکن اُصولوں کی جنگ میں قائداعظم ہر جگہ کامیاب ہوئے۔ صرف 7سال کی جہدِ مسلسل نے ہمیں آزادی کی دہلیز تک پہنچا دیا۔ بیماری کے باوجود محمد علی جناح جذبۂ حریت سے سرشار ہو کر حصولِ آزادی کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔ وہ جہاں بھی گئے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے رہے۔ آزادی کے حوالے سے اُن کے فرمودات اور تقاریر کے لیے ایک الگ دفتر کی ضرورت ہے لیکن اُن سب کا خلاصہ ایک ہی تھا کہ قیامِ پاکستان کے علاوہ کوئی بھی دوسری خواہش نہیں رکھتے۔ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم نے حصولِ پاکستان کے لیے اُصولوں کی پاسداری کی ۔ بیگم مولانا جوہر علی خان نے تو قراردادِ لاہور کے موقع پر ہی کہہ دیا تھا کہ یہ قراردادِ لاہور نہیں بلکہ قراردادِ پاکستان ہے ۔ یکم جنوری 1938ء کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے رفقاء نے سوال کیا کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل کیا ہے ؟ تو اقبال نے جواب دیا '' پاکستان'' ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے اسی بات کو باربار دہرایا کہ پاکستان کے قیام کے علاوہ وہ کسی بھی زاویۂ نظر کو قبول نہیں کر سکتے۔کاروانِ آزادی کے سپہ سالار قائداعظم محمد علی جناح نے بحیثیت گورنر جنرل بھی مختلف جلسوں میں شرکت کی اور اپنے اہم فرمودات سے قوم کو فیض یاب کیا۔ چند فرمودات نذرِ قارئین ہیں:
• مسلمان ایک متحد ہ قوم ہیں۔ پاکستان ایک نعمت ہے ۔ آئیے! اس نعمت کے لیے ہم عاجزی اور انکساری سے خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائیں اور دُعا کریں وہ ہمیں اس نعمت کے لائق بنا دے۔ (جمعتہ الوداع،17اگست 1947ء )
• بلاشبہ ترقی کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے مگر قومی ترقی سو فیصد سرمایہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کا انحصار انسانی کوشش و محنت پر ہوتاہے۔ (ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا افتتاح، 26ستمبر1947ئ)
• قدرت نے پاکستان کو بے حدو حساب معدنی دولت سے نوازا ہے اور وہ زمین کے نیچے پڑی انتظار کر رہی ہے کہ اسے کھود کر استعمال میں لایا جائے۔
• ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے لیکن یہ تو محض آغاز ہے ۔ اب بڑی بڑی ذمہ داریاں ہمارے کاندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں، اتنا ہی بڑا ارادہ اور اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔آزاد اور خود مختار پاکستان کی پہلی عید جو ان شاء اﷲ خوشحالی کا ایک نیا باب کھولے گی اور جو اسلامی ثقافت و نظریات کی نشاةِ ثانیہ کی تحریک کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ میں دُعا کرتاہوں کہ وہ ہم سب کو ہماری گزشتہ اور قابلِ احترام تاریخ کے شایانِ شان بنائے اور ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اپنے پیارے پاکستان کو صحیح معنوں میں عظیم ملک بنائیں۔ (پیغامِ عید، 18اگست 1947ء )
• میں پاکستان کے ہرمسلمان مرد اور عورت سے کہتاہوں کہ وہ اس کی تعمیر کریں تا کہ وہ اقوامِ عالم میں اپنے لیے ایک معزز مقام پیدا کرسکیں۔ (اخباری بیان،24اگست 1947ء )
قیامِ پاکستان کے بعد بابائے قوم 11ستمبر 1948ء کو اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ اُن کے انتقال سے ایسا خلاء پیدا ہوا جو آج تک پُر نہ ہو سکا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1949ء میں قراردادِ مقاصد پیش کی جو اسلام دشمن قوتوں کو پسند نہ آئی۔ اُنھیں 16اکتوبر 1955ء کو ایک جلسۂ عام میں شہید کر دیا گیا۔ قائدِ ملت کی شہادت کے بعد ہمیں حکمران تو نصیب ہوئے لیکن قائدجیسے نہ مل سکے۔ پاکستان عطیۂ خداوندی ہے اس میں ہر قسم کی نعمت موجو دہے ۔ معدنیات ، حسین و جمیل مقامات ، پھل ، میوہ جات، بہترین زراعت، نہری نظام، چاروں موسم، سمندر ، میدان، بہادر عوام، بہترین فوج اور بہت کچھ ۔صرف ہمارا احساسِ تفاخر بلند کرنے والوں کی کمی ہے۔عالمی تجزیہ کے مطابق تیس سال تک کی عمر کے باصلاحیت نوجوانوں کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ عدمِ برداشت اور سیاسی مفادات نے قومی تشخص کو مجروح کر دیا ہے ۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے اُسی جذبے کی ضرورت ہے جو تحریکِ پاکستان میں دیکھنے کو ملا۔ پاکستان ہماری اُمیدوں کا مرکز ہے ۔ اس کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات ، قومی مفادات پر قربان کر دیں کیوںکہ ہماری انفرادی زندگی کی خوشحالی پاکستان کی ترقی سے وابستہ ہے ۔
پڑھنے والوں کا قحط ہے ورنہ
گرتے آنسو کتاب ہوتے ہیں
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے