زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ہمارے ملک کی بڑی آبادی کاشتکاری سے منسلک ہے اور یہ سب سے زیادہ خود روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے لیکن پاکستان میں کاشتکاری روایتی طریقوں سے کی جارہی ہے اور زرعی شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی اور طریقوں کو بروئے کار نہیں لایا جارہا ، جسکی وجہ سے زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک کی بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اجناس کافی نہیں ہوتیں اور درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور کسان بھی خوشحال نہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کے وژن کے تحت زراعت کو بھی ترجیحی شعبے میں شامل کیا گیا ہے اور اگر اس وژن کو حقیقی معنوں میں اختیار کیا گیا تو زرعی شعبہ میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے اور یہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوگا۔ایس آئی ایف سی پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک بڑا محرک اور دوررس وژن کا حامل ہے، اس وژن پر عملدرآمد کریں تو کوئی بھی چیز ہماری ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
ملکی خوشحالی کے لیے زرعی اراضی کا تحفظ ضروری ہے حکومت اس سلسلے میں بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے۔زراعت کے شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(ایس آئی ایف سی)کے ایجنڈے میں سرفہرست شعبہ ہے، وزارت منصوبہ بندی نے زرعی شعبوں سے متعلق ترقیاتی منصوبوں کے جلد نفاز کے لئے کوششیں تیز کرتے ہوئے متعلقہ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ان منصوبوں کو جلد مکمل کریں تاکہ زراعت کے شعبے میں جلد ترقی حاصل کی جاسکے۔
واضح رہے کہ پلاننگ کمیشن میں اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی مرتب کی گئی ہے جس کے ٹرمز آف ریفرنس میں فوڈ سکیورٹی، زرعی ترقی، دیہی علاقوں کی روزی روٹی اور شہری علاقوں کی طرف ہجرت کی بڑھتی ہوئی رفتار کے حوالے سے لینڈ ڈویلپرز یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ذریعے زرعی اراضی کو تبدیل کرنے کے ممکنہ مضمرات پر غور کرنا شامل ہے۔ ٹی او آرز میں اس موضوع سے متعلق موجودہ وفاقی اور صوبائی قانون سازی کے ساتھ ساتھ زمین کے استعمال اور زوننگ کے مروجہ ضوابط کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔ کمیٹی متعلقہ سٹیک ہولڈرز اور شعبے کے ماہرین سے مشاورت کرے گی تاکہ صوبوں کے درمیان زرعی اراضی کو ہائوسنگ سوسائٹیز یا انڈسٹریل سٹیٹس میں تبدیل کرنے کی حوصلہ شکنی کے لیے قوانین متعارف کرانے کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ رواں مالی سال میں زراعت کے شعبے کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت اربوں روپے مالیت کے کئی منصوبے مختص کیے گئے ہیں تاکہ زرعی شعبے سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے۔ ان منصوبوں میں کیج کلچر کلسٹر ڈویلپمنٹ کا منصوبہ ، پاکستان میں آلو ٹشو کلچر ٹیکنالوجی کی کمرشلائزیشن، صارفین کے ذریعے بیج کی تصدیق کے نظام کا قیام، جنوبی بلوچستان میں سیڈ سرٹیفیکیشن سروسز کا قیام ،قومی تیل کے بیج بڑھانے کا پروگرام، پاکستان کے بارانی علاقوں میں کمانڈ ایریا بڑھانے کا قومی پروگرام؛ پاکستان میں آبی گزرگاہوں کی بہتری کے لیے قومی پروگرام ،گنے کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ،گندم کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ جیسے دیگر منصوبے شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں زراعت کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات ہیں جس کے لیے ایس آئی ایف سی بھرپور اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ یاد رہے کہ ایس آئی ایف سی کا قیام اس سال کے شروع میں غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس میں پانچ اہم شعبوں کو اہمیت دی جا رہی ہے جن میں زراعت، دفاعی پیداوار، کان کنی/معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی جیسے دیگر منصوبے شامل ہیں۔ زرعی شعبے سے متعلق اہم ترین منصوبوں میں 5000 ملین روپے کے لاگت کا گرین ریوولیوشن 2.0 کا منصوبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کا مقصد زراعت کی پیداواری صلاحیت میں اہم رکاوٹوں کو دورکرنا ہے۔حکومت نے کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے، اناج، پھلوں اور سبزیوں کی قدر میں اضافہ، بڑی فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ، خواتین اور نوجوانوں کو زراعت، زرعی کاروبار میں شامل کرنے اور زرعی تحقیق کو فروغ دینے اور معاونت کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے فروغ پر بھی بھرپور اقدامات اٹھائیں۔ پاکستان کی غذائی مصنوعات برآمد کرنے کی صلاحیت سخت بین الاقوامی معیارات کی وجہ سے محدود ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے باغبانی کی فصلوں کی اہم رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے 1000 ملین روپے کا ایک اور منصوبہ ''ہارٹیکلچر سپورٹ پروگرام'' ہے۔ اس منصوبے کو منتخب پھلوں اور سبزیوں کے میدان میں اور فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ویلیو ایڈنگ ٹیکنالوجیز کا مظاہرہ کرتے ہوئے باغبانی کی ویلیو چینز کو مربوط اور مضبوط کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔پاکستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کے لیے 377,017 ملین روپے کا ایک اور منصوبہ جس کے تحت 100,000 ٹیوب ویلوں کی تعداد کو تبدیل کیا جا رہا ہے جس میں 50,000 ڈیزل اور 50,000 بجلی کے ٹیوب ویلوں کو تبدیل کرنا شامل ہیں۔
زندگی کا انحصار پانی کے بعد بلاشبہ خوراک پر ہے۔خوراک کے مختلف ذرائع ہوسکتے ہیں لیکن ان میں سے نباتات ہی وہ پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہے جس سے انسانوں اور حیوانوں نے اپنی زندگی کو دوام بخشا ہے یعنی نباتات کے بغیر انسان اور حیوانات گویا زیادہ عرصہ اس کرۂ ارض پر زندہ نہیں رہ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ انسان نے ابتدا سے ہی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسب زراعت سیکھا اور انسان جہاں آباد ہوتا گیا، ساتھ ہی اس نے اپنے لیے اجناس اگانے اور اس کے لیے موزوں زمین کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ۔ انسانی معاشرہ ٹیکنالوجی میں بے شک جتنی بھی ترقی کرے لیکن بھوک کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے ہر حال میں خوراک چاہیے اور خوراک سب سے زیادہ زراعت کے شعبے سے ہی ملتی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ زراعت ہی وہ شعبہ ہے جو زندگی کی بنیاد ہے۔کوئی بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا لیکن بدقسمتی سے اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود دیگر ممالک کے مقابلے میں ماضی میں پاکستان میں اس شعبے کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور بات یہاں تک پہنچی کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اب گندم تک دیگر ممالک سے خرید کر لانے پر مجبور ہے۔
دیگر حکومتی اقدامات کے ساتھ زراعت کے شعبے کو بلندی پر پہنچانے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کی فوری ضرورت ہے جن میں زرعی زمینوں پر ہائوسنگ منصوبوں کی روک تھام، کسانوں کے لیے کھاد اور تخم کا بندوبست، زرعی لیبر کے معاوضے میں اضافہ، بنجر زمینوں کو کاشت کے قابل بنانا، زرعی زمینوں کے لیے پانی کے ذخائر بنانے اور منڈی تک آسان رسائی جیسے اقدامات شامل ہیں۔اس کے علاوہ کاشتکاری میں تعلیم یافتہ لوگوں اور پیشہ وارانہ لوگوں کی دلچسپی کے لیے بھی اقدامات ضروری ہیں تاکہ اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور ملک کو اس شعبے میں کسی اور کے سامنے مجبور ہونے سے بچایا جاسکے۔
مضمون نگار ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے