سپاہی محمد عمران شہید کے حوالے سے نسیم الحق زاہدی کی تحریر
جولوگ زندگی جیسی نعمت کو کسی عظیم مقصد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ،وہ حیات جاوداں پالیتے ہیں ۔دین اسلام میں اللہ کی راہ میں اپنی زندگی قربان کردینے والوں کو شہید کہا جاتا ہے۔پاکستان چونکہ قائم ہی دین اسلام کے نام پر ہوا ہے ،اس لیے پاک سرزمین کی حفاظت پر مامور افواج پاکستان کے جوان،سپاہی اور افسر دفاعِ وطن کے لیے اپنی جان لڑا دینے کو اپنے لیے فخر گردانتے ہیں۔
قاری صاحب اکثر کہتے تھے کہ محمد عمران کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا مقام دینا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ بات پورے گائوں میں پھیل گئی کہ قاری صاحب محمد عمران کی بڑی عزت کرتے ہیں اور اسے ڈانٹتے بھی نہیں ہیں۔ ایک بار قاری صاحب ہمارے گھر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ'' محمد عمران پر کبھی سختی نہ کرنا کیونکہ میں نے اس میں بہت کچھ مختلف اور عجیب دیکھا ہے، یہ بچہ ایک دن کسی بڑے مقام پر ہوگا اور آپ سب لوگوں کو اس پر رشک ہوگا۔''
گائوں چواشریف تحصیل قائد آباد ضلع خوشاب کا ایک عظیم بہادر سپوت سپاہی محمد عمران بھی وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کے جام کو پی کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا ۔سپاہی محمد عمران 10ستمبر 1999کو گائوں چوآشریف کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ان کے والد محمد اکبر کا تعلق بھی پاکستان آرمی سے تھا ۔شہید سپاہی محمد عمران کے بڑے بھائی محمد رمضان بتاتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں شہید وہ فرد واحد تھا جس نے تعلیم حاصل کی تھی ۔ہم لوگ غربت کی اس سطح سے تعلق رکھتے ہیں جہاں دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ہر شخص کو کام کرنا ہوتا ہے ،ہم لوگ نمک کی کان میں مزدوری کرکے بڑی مشکل سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔شہید محمد عمران نے پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو والد سمیت باقی ہم تینوں بھائیوں نے اس کی خواہش کا احترام کیا ۔شہید محمد عمران نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گائوں چوا شریف سے حاصل کی اور پھر اس کے بعد تحصیل قائد آباد سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ شہید نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اس کی پہلی اور آخری خواہش پاک فوج میں جانا تھا ،وہ فوجی بننا چاہتاتھا۔ ہمارے والد بھی پاک فوج سے ریٹائرڈ تھے ۔شہید ہروقت والد صاحب سے فوج کی بہادر ی کے قصے سنا کرتا تھا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو قبول فرمالیااور دو بار ناکامی کے بعد تیسری بار سپاہی محمد عمران 2020 میں پاک فوج کے لیے منتخب کر لیے گئے۔
مردان آرمی ٹریننگ سنٹر سے ٹریننگ حاصل کرنے بعد عمران کی پوسٹنگ ایف سی بلوچستان میں ہوگئی۔ جب چھٹی پر پہلی بار گھر آیا تو اس کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ ہم گائوں والے لوگ ہمیشہ ایک کنبے کی حیثیت سے اکٹھے مل جُل کر رہتے ہیں ۔والد صاحب، عمران کے فوج میں جانے سے پہلے وفات پاگئے تھے۔ ہم چار بھائی ہیں ہماری کوئی ہمشیرہ نہیں ہے۔ الحمدللہ سارے گائوں کی بیٹیاں ہمیں بھائی مانتی ہیں اور ہم بھی انہیں بہنوں کی طرح کر عزت دیتے ہیں۔عمران نے اپنی پہلی تنخواہ والدہ کو دی اور ساتھ یہ عرض کیا کہ وہ یہ پیسے بہنوں میںتقسیم کردیں ۔والدہ نے ایسا ہی کیا۔ شہید محمد عمران ایک انتہائی نیک دل اور خداترس انسان تھا،پانچ وقت کا پکانمازی اور دوران ڈیوٹی بھی کبھی روزہ نہیں چھوڑتا تھا ۔وہ سب سے بے حد محبت کرنے والا ہر دل عزیز انسان تھا۔اسے کتابیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا بالخصوص اسلامی کتابیں ۔وہ واقعہ کربلا کو یاد کرکے بہت روتا تھا اور ہمیں بتاتا تھا کہ کس طرح سیدنا امام حسین اور آپ کے خاندان نے اسلام کے لیے قربانیاں دیں ۔وہ ہمیشہ اپنے لیے شہادت کی دعا کرتا تھا۔ وہ جب بھی چھٹی پر آتا تو اپنے ساتھ بہت سی کتابیںلے کر آتا اور پھر ہمیں پڑھ کرسناتاا ورکہتا تھا کہ اصل زندگی تو اللہ کی راہ میں جینے اور مرنے کا نام ہے۔ وہ مجھے خاص طور پر کہتا تھا کہ بھائی جیسا بھی ہو بچوں کو تعلیم ضرور دلوانا کیونکہ تعلیم کے بغیر انسان نامکمل ہے۔
وہ ہمیشہ ایک بات کرتا تھا کہ میری دومائیں ہیں ایک جنم دینے والی اور دوسری دھرتی ماںاور میں دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں کیونکہ یہ دھرتی ہے تو ہم سب ہیں ۔ہم ان پڑھ لوگ اس کی بہت سی باتوں کو سمجھ نہ پاتے اس لیے اس سے تشریح پوچھتے تو وہ خوشی کے ساتھ بار بار ہمیں ہماری دیہاتی زبان میں سمجھاتا۔
محمد عمران کے بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ ہمارے سب سے بڑے بھائی جو کہ ایک حادثے میں وفات پاگئے تھے ان کے پانچ بچے تھے جن میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے، ان سب بچوں کی مکمل کفالت شہید کرتے تھے۔ وہ ان بچوں کو پڑھا رہے تھے، جس دن محمد عمران شہید ہوئے ، اس دن سبھی بچے چیخ چیخ کررو رہے تھے کہ ہم ایک بار پھر سے یتیم ہوگئے۔عمران کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے کہ جب بچپن میں مسجد میں قرآن کریم پڑھنے جاتا تھا تو قاری صاحب ان کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے ،کبھی ایسا نہ ہوا کہ اس کی مسجد ،سکول یاکالج سے کسی بھی قسم کی شکایت موصول ہوئی ہو،وہ انتہائی محنتی اور ذہین انسان تھے۔ قاری صاحب اکثر کہتے تھے کہ محمد عمران کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا مقام دینا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ بات پورے گائوں میں پھیل گئی کہ قاری صاحب محمد عمران کی بڑی عزت کرتے ہیں اور اسے ڈانٹتے بھی نہیں ہیں۔ ایک بار قاری صاحب ہمارے گھر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ'' محمد عمران پر کبھی سختی نہ کرنا کیونکہ میں نے اس میں بہت کچھ مختلف اور عجیب دیکھا ہے ،یہ بچہ ایک دن کسی بڑے مقام پر ہوگا اور آپ سب لوگوں کو اس پر رشک ہوگا۔''ہم سادہ لوگ قاری صاحب کی باتیں نہ سمجھ پاتے ۔شہید کے بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ محمد عمران کوکھانے میںپراٹھا اور اچاربہت پسند تھا وہ جب بھی چھٹی لے کر گھر آتا تو صبح وشام پراٹھا ہی کھاتااور واپس ڈیوٹی پر جانے لگتا تو اپنے ساتھ کئی پراٹھے بنواکر لے جاتا تھا۔وہ ہمیشہ ایک بات کرتا تھا کہ میری دومائیں ہیں ایک جنم دینے والی اور دوسری دھرتی ماںاور میں دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں کیونکہ یہ دھرتی ہے تو ہم سب ہیں ۔ہم ان پڑھ لوگ اس کی بہت سی باتوں کو سمجھ نہ پاتے اس لیے اس سے تشریح پوچھتے تو وہ خوشی کے ساتھ بار بار ہمیں ہماری دیہاتی زبان میں سمجھاتا۔ اکثر والدہ سے یہ کہتا تھاکہ وہ ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کے نصیب میں شہادت لکھ دے تو اس بات پروالدہ تڑپ جاتیں جوکہ ایک فطری عمل تھا ،بے شک شہادت قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے ۔بقول شاعر :(ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں)مگر بڑھاپے میں جوان بیٹے کی لاش کا بوجھ اٹھانا کوئی آسان کام نہیں۔ وطن کی اہمیت اور قدر پوچھنی ہے تو ان مائوں سے جاکر پوچھیے جنہوں نے اس پاک دھرتی پر اپنے جوان بیٹوں کو قربان کیا ہے۔ ان مائوں سے پوچھیے جواپنے شہزادوں کی شادیوں کی شیروانیاں سلوارہی تھیں اور انہیںسبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوتوں میں اپنے لخت ِ جگر کے لاشے دیکھنا پڑے ہیں۔ وطن سے وفا کا درس سیکھنا ہے تو ان بہنوں سے سیکھیے جنہوں نے اپنے جوان بھائیوں کو کھویا ہے۔ ارض مقدس سے عشق کی انتہا، ان سہاگنوں سے جاکر پوچھیے کہ جن کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بھی ابھی مدہم نہیں پڑا تھا کہ وہ بیوہ ہوگئیں ۔
شہید کے بھائی محمد رمضان بتاتے ہیں کہ محمد عمران کی رگوں میں خون کی جگہ وطن عزیز کی محبت دوڑتی تھی ۔ محمد عمران جب آخری بارچھٹی پر گھر آیا تو ہم نے اس سے بڑے بھائی کی شادی کی ،اس کے بعد شہید کی باری تھی۔ شادی سے فارغ ہوکر ہم سب بھائیعمران کو الوداع کرنے گئے ہمیں کیا علم تھا کہ اس کے بعد کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوسکیںگے۔ سپاہی محمد عمران کی اس وقت ڈیوٹی تافتان بارڈر پر تھی،17جولائی 2023کوعمران ساتھیوں سمیت گاڑی میں جارہے تھے کہ آئی ای ڈی بلاسٹ ہونے کی وجہ سے وہ شہید ہوگئے۔(اناللہ وانا الیہ راجعون)
فوج میں جانے کے ساڑھے تین سال بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کی شہادت کی دعا قبول کرلی۔ شہید سپاہی محمد عمران کے بھائی بتاتے ہیں کہ مجھے فون آیا کہ آپ کے بھائی شہید ہوگئے ہیں ۔یقین کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ چار سال کے اندر ہم یہ چوتھا جنازہ اٹھارہے تھے ،پہلے والد صاحب کا پھر والدہ کا،پھر بڑے بھائی کا اور اب جوان بھائی محمد عمران کا جنازہ۔ ،آج ہمیں قاری صاحب کی وہ بات سمجھ میں آگئی کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے محمد عمران کو ایک بڑا مقام عطا کیا ۔19جولائی 2023کو دو دن کی طویل مسافت کے بعد شہید کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹے گائوں لایا گیا ،ہرآنکھ اشک بار تھی، سارے گائوں نے شہید کا بھر پور استقبال کیا۔ سیکڑوں سوگواران کی موجودگی میںصبح سات بجے شہید کی نماز جنازہ اداکی گئی اور فوجی اعزاز کے ساتھ دھرتی کے بیٹے کو دھرتی کے سپرد کردیا گیا۔شہید کے بھائی نے بتایا کہ عمران ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے۔بلا شبہ اس نے اپنا کہا ہوا سچ ثابت کردکھایا، اﷲ شہید کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات اور رسائل میں لکھتے ہیں اور کئی کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے