ابواء کی پتھریلی زمین اور کالے پہاڑ بھی اُس دن افسردہ تھے۔ وجہِ تخلیقِ کائنات حضرت محمدۖ چھ سال کی عمر میں اپنی ماں بی بی آمنہ کو دفنانے کے بعد حضرت اُمِ ایمن کے ہمراہ روتے ہوئے والدہ کی قبر سے اُتررہے تھے۔ یکا یک اُمِ ایمن کا ہاتھ چھڑا کر واپس ماں کی قبر پہ پہنچے۔ جو منظر اُمِ ایمن نے دیکھا اُسے دیکھ کر یقینا آسمان بھی رویا ہوگا۔ آپۖ اپنی والدہ کی قبر سے لپٹے روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ''ماں تو جانتی ہے میرا دُنیا میں تیرے سوا کوئی نہیں پھر بھی تُو مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے۔''بیشک ماں کی وفات کادُکھ ایک ایسا دُکھ ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
خالقِ کائنات نے ارض و سماء کی رعنائیاں، رنگ و بُو ، خوبصورتی ، حسن ،کشش الغرض سب کچھ جوڑ کر اِک حسین رشتے کی صورت میںزمین پہ اُتارا جسے لوگ ماں کہتے ہیں۔ بے غرض اور والہانہ پیار کی انتہا اور انمول محبت کی معراج ، مالکِبحر وبر نے صرف ماں کو ہی عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ پیدائش سے لے کر نزع کے وقت تک انسان اپنے ہر غم، ہر بیماری، ہر پریشانی، ہر خوشی ،ہر راحت اور ہر کامیابی پر جس ہستی کو یا دکرتا ہے وہ ماں ہے۔ ماں کا وجود سراسررب کے نور کی جھلک ہے۔ ماںکے قدموں تلے جنت کا تصور ہماری تعلیمات میں شامل ہے۔ ماں کے لبوں پہ دعا مستجابی کی اِک ایسی ضمانت ہے جس سے کوئی ذی روح انکار نہیں کرسکتا۔
خدا کے نور سے عورت کا روپ دھارا تو
صداحترام زبانِ خلق پکاری، ''ماں''
انسان کی فطرت میںشامل ہے کہ وہ جتنا بھی تھکا ہوا ہو، جیسے بھی مصائب سے دوچار ہو، ماں کی آواز سے اس کی سب پریشانیاں زائل ہو جاتی ہیں۔ماں کی آغوش میں اُسے وہ سکون ملتا ہے جو دنیا کی کوئی دولت نہیںدے سکتی ۔ دنیا کی بڑی سے بڑی خوشی انسان کو وہسکوننہیں پہنچا سکتی جو اُسے ماں کی گود میں آکر میسر ہوتا ہے۔ عمر کی قید سے ماورا، انسان چاہے خود بوڑھا ہو جائے، ماں کی آغوش ایک گھنا، سایہ دار درخت بن کر اُسے پھر سے بچپنے کی معصومیت اور لڑکپن کی خوشگوار یادوں سے جوڑ دیتی ہے۔ یقینا یہ منظر دیکھ کر فرشتے بھی انسان کی قسمت پہ رشک کرتے ہیں۔
رشک کرتے ہیں فرشتے بھی مِری قسمت پر
ماں کی آغوش میں جنت کا گماں ہوتا ہے
جنت کی طلب اپنی جگہ مگر ماں کا ساتھ میسر ہو تو دنیا بھی جنت ہے اور اگر اس قرب کو فرمانبرداری اور اطاعت کی سعادت میںڈھال دیا جائے تو یقینا آخرت میں بھی کامیابی اورسرفرازی ہی مقدر ہوگی۔ ماں کو ایک مرتبہ پیار سے دیکھ لینا ایک مقبول حج کے متبادل ہے ، تو سوچئے جن کے سروں پہ یہ گھنیری چھائوں اپنی بانہیں پھیلائے کھڑی ہے، ان کے لیے حصولِ جنت کتنا آسان ہوگا۔ ماں کی ایک مُسکان انسان کے رگ و پے میں روشنی اور اُجالے کی نوید بن جاتی ہے۔ ماںوہ ہستی ہے جسے ربِّ کائنات اولاد کے حق میں ہاتھ اٹھاتے ہی مستجابی کا پیغام سنا دیتا ہے۔ یقینا اولاد کے لیے ماں کی مسکراہٹ سے قیمتی اور کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔
سب سے حسین چیز رُخِ کائنات پر
ہے وہ ہنسی جو صرف ماں کے پاس ہے
جسے ماں کا سایہ اور لمس میسر ہو اُسے چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کا شکر ادا کرے کیونکہ اس کی منزل چاہے کتنی ہی کٹھن کیوں نہ ہو، زندگی میں اُسے جتنے بھی مشکل مراحل کا سامنا کیوں نہ ہو، ماںکی دعا کی برکت سے ہر پریشانی اُس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہوجاتی ہے۔ ماں کا وجود کسی بھی گھر کو جنت بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماں کے دم سے بہن بھائی ایک مضبوط حصار میں بندھے رہتے ہیں اور جب اتنی بڑی نعمت انسان کے سرپرسلامت ہو تو اس کا اپنے پروردِ گار کی بار گاہ میں شکر ادا کرنا ایک فطری عمل ہے۔
گود ماں کی جسے میسر ہو
اس پہ واجب ہے روز شکرانہ
ماں گئی رب نے کہہ دیا موسیٰ
اب جو آنا تو سوچ کر آنا
ہم جس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں ہم لڑکپن میں ہی اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کی خدمت کے جذبے سے نکل پڑتے ہیں۔ گویا ہماری مثال اس پرندے جیسی ہے جسے ماں کی آغوش اس وقت تک ہی میسر رہتی ہے جب تک وہ گھونسلے میں رہتا ہے اور خود اڑنا نہیں سیکھ لیتا۔ جیسے ہی اُسے اپنا گھونسلہ چھوڑنا پڑتا ہے ویسے ہی اُسے آغوشِ مادر سے دور ہونا پڑتا ہے۔ ہم میں سے بہت تھوڑے لوگ اپنی ماں کی خدمت کا حق ادا کرپاتے ہیں۔ بے شک وطن کی سرحدوں کی حفاظت کا جذبہ ہماری نس نس میں شامل ہے اور عین عبادت ہے اور ہم اﷲ کے سپاہی ان چند خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں اتنی عظیم سعادت حاصل ہوئی۔ مگر ہماری ذمہ داری ہے کہ جن کے سروں پہ ماں کا سایہ قائم ہے اور وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے کہیں دُور تعینات ہیں، روزانہ کم از کم ان سے فون پر ضرور بات کریں۔ اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ نکال کر ماں کو ہر مہینے بھیجیں۔ چاہے ماں کو ہمارے ایک روپے کی بھی ضرورت نہ ہو۔ مائوں کے لیے اپنی اولاد کی جانب سے بھیجا گیا ہر تحفہ دنیا کا سب سے حسین تحفہ ہوتا ہے اور وہ مدتوں اُسے سینے سے لگائے جب جب بھی دیکھتی ہے تو بے اختیار دعائوں کا ورداس کی زبان پہ جاری ہوجاتا ہے اور جسے ماں کی دعا ئوں کا آسرا ہو، اسے بھلا دنیا کی کسی تکلیف ، دھوپ ، پریشانی یا آزمائش کا کیا ڈر۔اسلامی تاریخ میں روزِ روشن کی طرح اِک نام جو ہمیشہ جگمگاتا ہے وہ حضرت اویس قرنی کا ہے۔ اویس قرنی قرن کے رہائشی تھے اور ان کی والدہ نابینا تھیں۔ آپ والدہ کی بیماری کی وجہ سے نبی ٔ کریمۖ کی زیارت نہ کرسکے، یہاں تک کہ آپۖ کے وصال کا وقت آن پہنچا۔ ماں کی اس اعلیٰ خدمت کے صلے میں حضرت اویس قرنی کو وہ مقام حاصل ہوا ، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یقینا ماں کی خدمت اِک ایسا عمل ہے کہ جو اویس قرنی جیسے تابعی کوبھی انسانیت کی اس معراج پہ پہنچا سکتا ہے کہ ایک دن حضرت عمر اورحضرت علی کو اﷲ کے نبیۖ حکم دے رہے تھے ''میرے بعد میرا اُمّتی اویس آئے تو اُس سے اپنے لیے دُعا کروانا۔''یہ معراج ، یہ مرتبہ یقینا انہیں ماں کی خدمت کے صلے میں نصیب ہوا تھا۔
ماں کے سائے کا ہی کرشمہ ہے
دھوپ ملتی ہے احترام کے ساتھ
اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ یکا یک سر سے یہ گھنیرا سایہ ہٹا لیا جاتا ہے۔ بہار کا موسم اچانک سے خزاں میں بدل جاتا ہے۔ دھوپ، جاڑا، پت جھڑ ہر سمت سے انسان کو گھیر لیتے ہیں۔ وہ سہارے ڈھونڈ تا ہے۔ سب سہارے ''نفسی نفسی '' کا ورد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماں کی آغوش کا سکون اور اس کی ممتا کی تڑپ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ عنبر کی خوشبو سے زیادہ ماں کے آنچل کی مہک، ماں کے وجود کی خوشبو، ماں کی گود میں بسی دنیا تب یاد آتی ہے۔ وہ مضبوط حصار جو اُسے گرمی کی حدت اور سردی کی کپکپاہٹ سے بچا کررکھتا تھا، تب سمجھ میں آتا ہے۔ دعاوئوں والے ہاتھ رخصت ہوتے ہیں تو انسان خود کو بے سرو سامان اور بے آسرا پاتا ہے۔
ماں گئی ہے تو یہ احساس ہوا ہے راشد
سر سے جبریل کاپر چھن سا گیا ہو جیسے
وہی گھر جہاں بہن بھائی پیار کے بندھن میں بندھے تھے، مائوں کے جانے کے بعد اُجڑ جاتے ہیں۔ فکر یں اپنا روپ بدل لیتی ہیں اور اولاد فکرِ فردا، فکر معاش اور مادی طرزِ فکر میں ایسے گم ہوتی ہے کہ نہ وہ گھر یاد رہتا ہے، نہ ہی وہ پیار کے بندھن، نہ ماں کے گھر کی وہ رونقیں یا درہتی ہیں اور نہ ہی بچپن میں ماں کے ہاتھ سے بنے لذیذ پکوان۔
سایہ دیتی ہیں مگر خود سے جلے جاتی ہیں
اپنی اولاد کی فکروں میں ڈھلی جاتی ہیں
رونقیں ان کے ہی سائے سے ہیں ملحق راشد
گھر اُجڑ جاتے ہیں جب مائیں چلی جاتی ہیں
نبی کریم ۖ نے ایک دن صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے فرمایا '' کاش میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز کے لیے جائے نماز پہ کھڑا ہوتا اور میری ماں مجھے آواز دیتی ''محمد'' ۔ میں اپنی نماز توڑ کے جواب دیتا''جی ماں جی میں حاضر ہوں۔'' گویا مقصد ہماری تربیت تھی کہ ماں کا درجہ کتنا عظیم ہے۔ مگر مائیں ہمیشہ کب ساتھ رہتی ہیں۔ شاید یہ بھی زندگی کا ایک دور ہے جسے ہم میں سے اکثریت کو دیکھنا ہے۔ ماں کے جانے کے بعد ماں کے حقوق اولاد کے ذمے ہیں، انہیں خوش اُسلوبی سے انجام دیناانتہائی ضروری ہے۔ ماں کے چلے جانے کے بعد ماںکے رشتے داروں سے حُسنِ سلوک، بہن بھائیوں سے پیار، ماں کی مغفرت کے لیے دعائیں، ماں کے اپنی زندگی میں کیے گئے اچھے کاموں کا جاری رکھنا یہ سب اولاد کے ذمے چند ضروری حقوق ہیں جنہیں جاری رکھنا اولاد کی اولین ترجیحات میں شامل رہنا چاہیے۔
دعا ہے فاطمہ زہرا کی یاوری ہو نصیب
درِ خدیجة الکبریٰ کی حاضری ہو نصیب
تیری قبر پہ ستاروں کی کہکشاں اُترے
اے مری ماں تجھ زینب کی چاکری ہو نصیب
ماںکے دنیا سے چلے جانے کا دُکھ ایک ایسا دکھ ہے جس کا ازالہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔دیر ہو جائے تو بس پچھتاوا ہی باقی بچتا ہے اور اگر ابھی آپ کو گھنیری چھائوں میسر ہے تو اس کی قدر کیجئے اور ماں کی خدمت کرکے جنت کمایئے اور اگر آپ اس عظیم نعمت سے محروم ہو گئے ہیں تو بعد از وفات ماں کی مغفرت کی دعائوں سے اپنی ماں سے رابطہ رکھیئے۔ ماں سے ملنے جایئے تو ماںکے قدموں میں سر رکھ کر اُس کا شکریہ ادا کیجئے کہ ہم آج جو کچھ بھی ہیں اُسی کی دعائوں کی بدولت ہیں۔
راشد مرے لیے تو ہے جنت وہی مقام
مٹی کے ڈھیر پر جہاں لکھا ہے ماں کا نام
مضمون نگار معروف شاعر اور تین کتابوں کے مصنف ہیں اور اخلاقی اقدار سے لکھی گئی شاعری اور نثر کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
تبصرے